ع۔ پیرزادہ
eishapirzadah1@hotmial.com
موسم بدل رہا ہے اور جیسے ہی سورج کی کرنوں میں تھوڑی سی گرمائش آجائے ہم یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ شاید گرمیاں آرہی ہیں۔ اس لحاظ سے فروری کا مہینہ اہم ہے جب سردی اپنا دم توڑ دیتی ہے۔ کھلی فضاء اچھی لگنے لگتی ہے اور درختوں پر نئے پتوں کی بہار آتی دکھائی دیتی ہے۔ ذرا سی گرمی لگتی ہے اور ہم گرم سویٹرز کو خدا حافظ کہہ دیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے یک دم جسم میں ٹھنڈ کے اثرات نمودار ہوتے ہیں۔
بچے سب سے جلدی متاثر ہوتے ہیں۔ آپ غور کریں کہ اگر آپ نے اپنے بچے کو تمام موسم سرما ٹھنڈ سے بچایا ہے تو اس ماہ آپ کا بچہ کیوں بیمار ہو جاتا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے جسم کا اندرونی ٹمپریچر زیادہ ہے جسے موسم سرما میں سردی سے بچانے کے لیے موٹے کپڑے پہنے جاتے ہیں۔ لیکن جب یک دم ہم ماہ فروری میں موٹے کپڑے کم کرتے ہیں تو ہمارے جسم کے درجہ حرارت کو باہر کا درجہ حرارت متاثر کرتا ہے اور اس وجہ سے ناک بہنا، کھانسی، بلغم سے سینہ جکڑنا جیسی شکایات عام ہوجاتی ہے۔
اس ماہ کی ایک خاص بات تیز چلنے والی خشک ہوائیں ہیں جن کے باعث بھی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ جب موسم بدل رہا ہو تو یک دم گرم کپڑوں کا استعمال ترک نہیں کرنا چاہیے۔
اگر دوسرے لحاظ سے سوچیں تو یہ موسم بچوں کی آئوٹ ڈور سرگرمیوں کے لیے بھی موزوں ہے۔ نہ زیادہ گرمی نہ سردی۔ تفریح کے وہ مقامات جہاں دن کے اوقات میں موسم گرما میں جانا ممکن نہیں وہاں جانے کا یہ سنہرا وقت ہے۔
مثلا چڑیا گھر، سفاری پارک، جھولوں کے پارک میں جانے کے لیے یہ وقت اچھا ہے۔ بچوں کے لیے کھلی فضاء میں کھیلنا ان کی جسمانی اور ذہنی نشوونما کے لیے بھی نہایت ضروری ہے جسے ہم نظر انداز کر دیتے ہیں۔ جبکہ ہریالی ان کی بینائی کو قوت بخشنے کے لیے بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ آپ حیران ہوں گے کہ مٹی جس سے ہم اپنے بچوں کو دور رکھتے ہیں کہ کہیں مٹی لگنے سے بچے اپنے ہاتھ ، پائوں اور کپڑے خراب نہ کر لیں تو اس مٹی میں حیران کن حد تک طاقتور خردبینی جراثیم موجود ہوتے ہیں جن کے بچوں کی صحت پر پڑنے والے مثبت اثرات کو ہم نے سمجھنا ابھی صرف شروع ہی کیا ہے۔ سنہ 2009 میں ہونے والی ایک تحقیق نے اس نظریے کے حق میں ثبوت فراہم کیے۔ اس تحقیق میں پایا گیا کہ اٹینشن ڈیفیسٹ ہائپر ایکٹیویٹی ڈس آرڈر (اے ڈی ایچ ڈی) کے حامل بچے پارک میں 20 منٹ کی چہل قدمی کے بعد اپنے کام پر بہتر انداز میں توجہ دے سکتے تھے جبکہ اس کے مقابلے میں صاف ستھری شہری سڑکوں پر 20 منٹ چہل قدمی کرنے والے بچوں میں یہ صلاحیت کم رہی۔ گھاس اور درختوں سے قربت کا بظاہر ان کے ذہنوں پر مثبت اثر پڑا۔ ماہرین کی تجویز ہے کہ ’فطرت کا ایسا ڈوز‘ اے ڈی ایچ ڈی کے حامل بچوں میں بہتری کے لیے دیگر طریقوں کے ساتھ ساتھ ایک محفوظ اور آسانی سے دسترس میں موجود ذریعہ ہے۔
ذہنی بحالی کے علاوہ باہر کھیلنا سیکھنے کا ایک بیش بہا ذریعہ بھی ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر اٹلی کی یونیورسٹی آف پیلرمو میں بچوں کے ماہرِ نفسیات فرانچیسکو ویٹرانو کہتے ہیں کہ مٹی گوندھنے اور اس سے مختلف چیزیں بنانے سے بچے اپنے احساسات اور اپنی حرکات کے آپسی تعلق کو پروان چڑھا سکتے ہیں۔ جسا سینسری موٹر ڈویلپمنٹ کہتے ہیں کہ اس سے بچے آہستہ آہستہ اپنے جسم میں پیدا ہونے والے سگنلز کو سمجھنے لگتے ہیں۔
گھروں اور کلاس رومز سے باہر ہونے والی ایسی سرگرمیوں سے بچوں کو اپنے جذبات سمجھنے کا موقع بھی فراہم کر سکتی ہیں جو کہ دیگر ماحول نہیں کر سکتے۔
لہذافروری کے خوشگوار موسم سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بچو ں کو لے کر دن کے اوقات میں باہر نکلیں بس اس بات کا دھیان رکھیں کہ بچوں نے موٹے کپڑے پہنیں ہوں تاکہ وہ خشک اور سرد ہوائوں سے محفوظ رہ سکیں۔