ڈاکٹر طاہرالقادری نے جس ایجنڈے کے لئے لانگ مارچ کیا تھا اس ایجنڈے کی یقینا تکمیل نہیں ہوئی لیکن اس لانگ مارچ اور دھرنے کی افادیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔آئندہ کوئی بھی منتخب شدہ حکومت کسی بھی غیر جمہوری اقدام سے قبل کسی بھی پارٹی کی طرف سے ایسے لانگ مارچ اوردھرنے کے خدشات سے دوچار ضرور ہوگی۔ وزیر داخلہ رحمٰن ملک اس دھرنے کو طاقت کے ذریعے کچل کے رکھ دینا چاہتے تھے۔ ان کی پولیس نے پرامن دھرنے پر شیلنگ کی اور گزشتہ روز رحمن ملک ٹارگٹڈ اپریشن کا اعلان بھی کررہے تھے۔ صدر آصف علی زرداری کے دو ٹوک فیصلے پر رحمن ملک ڈی چوک میں خون کی ندیاں بہانے سے باز رہے۔ دھرنے کے منطقی اور پر امن اختتام سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ شدید اور گھمبیر مسئلے کا حل بھی مذاکرات سے ممکن ہو ۔ حکومت نے اچھا کیا کہ اس نے ہٹ دھرمی سے کام نہیں لیا اور طاہرالقادری نے بھی اپنے مطالبات کی مکمل منظوری کو انا کا مسئلہ نہیں بنایا۔ یہ دونوں کی فیس سیونگ اور دونوں اسے اپنی اپنی فتح بھی قرار دے سکتے ہیں۔ اخلاقی پریشر دونوں طرف تھا۔ بچے اور خواتین سخت سردی میں بیٹھے تھے ہر ذی شعور کی کوشش اور خواہش تھی کہ ان کو جلد سے جلد اس مصیبت سے نجات مل جائے۔ فریقین اسی سبب مذاکرات کی میز پر آئے۔ اس میں میڈیا کا کردار بھی اہم ہے جو لمحہ بہ لمحہ دھرنے کی صورتحال سے لوگوں بلکہ پوری دنیا کو آگاہ کرتارہا ۔میڈیا کا بھی پورا زور اپریشن کی مخالفت اور مذاکرات پر تھا۔ بہرحال حکومت مذاکرات کی میز پر آگئی۔
10 رکنی حکومتی مذاکراتی ٹیم اور تحریک منہاج القرآن کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کے درمیان ان کے کنٹینر میںپانچ گھنٹے تک جاری رہنے والے مذاکرات کامیاب ہوگئے اور ”اسلام آباد لانگ مارچ ڈیکلیریشن“ جاری کر دیا گیا۔ حکومتی ٹیم میں وفاقی کابینہ کے سینئر رکن اور پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرینز کے چیئرمین مخدوم امین فہیم، وفاقی وزراءسید خورشید شاہ، فاروق ایچ نائیک، ڈاکٹر فاروق ستار، بابر غوری، قمر زمان کائرہ، سینیٹر افراسیاب خٹک، چودھری شجاعت حسین، سینیٹر مشاہد حسین سید، سینیٹر عباس آفریدی شامل تھے۔ مذاکرات میں آغا مرتضی پویا نے ڈاکٹر طاہر القادری کی معاونت کی۔ ڈیکلیریشن پر حکومت کی جانب سے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف، حکومتی مذاکراتی ٹیم اور تحریک منہاج القرآن کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری، آغا مرتضی پویا نے دستخط کئے۔ صدر آصف علی زرداری نے معاہدے کی منظوری دی۔ جس کے بعد ڈاکٹر طاہر القادری نے پانچ روزہ لانگ مارچ اور دھرنا ختم کرنے کا اعلان کردیا اور جشن مناتے ہوئے گھروں کو واپسی شروع کر دی۔ 4 نکاتی اسلام آباد ڈیکلیریشن کے تحت قومی اسمبلی 16 مارچ 2013ء سے قبل کسی بھی وقت تحلیل کر دی جائے گی جس کے تحت عام انتخابات 90 روز کے اندر منعقد ہو سکیں گے۔ امیدواروں کے کاغذات کی جانچ پڑتال کے لئے ایک ماہ کی مدت مقرر کی گئی ہے آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت امیدوار کی پری کلیرنس کے بغیر امیدوارکو انتخابی مہم شروع کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ اس کا فیصلہ الیکشن کمشن کرے گا دوسرا نکتہ یہ کہ پاکستان عوامی تحریک حکومتی اتحاد سے مکمل اتفاق رائے سے دو نام نگران وزیراعظم کے لئے تجویز کرے گی بعد ازاں آئینی طریقہ کار کے تحت نگران وزیراعظم کا فیصلہ کیا جائے گا۔ ڈاکٹر طاہر القادری کا الیکشن کمشن کی تشکیل نو کا مطالبہ تسلیم نہیں کیا گیا انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ اس سلسلے میں آئینی مشکلات ہیں آئینی ماہرین سے اس بارے میں مزید مشاورت کی جائے گی۔ اس سلسلے میں 27 جنوری 2013ءکو 12 بجے منہاج القرآن سیکرٹریٹ لاہور میں ہوں گے۔ وفاقی وزیر قانون و انصاف فاروق ایچ نائیک اس سے قبل ایس ایم ظفر، وسیم سجاد، اعتزاز احسن، فروغ نسیم، لطیف آفریدی، خالد رانجھا اور ہمایوں احسن سے مشاورت کرکے اجلاس میں رپورٹ پیش کریں گے۔ چوتھے نکتہ میں کہا گیا ہے کہ انتخابی اصلاحات کے فیصلے پر 100 فیصد عملدرآمد ہوگا۔ سپریم کورٹ کے 8 جون 2012ء کے فیصلہ کی روح کے مطابق عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے گا۔ آئین کے آرٹیکل 62، 63 اور 218 پر عمل درآمد کیا جائے گا۔ لانگ مارچ کے دوران فریقین کے خلاف درج مقدمات واپس لے لئے جائیں گے۔ انتقامی کارروائی نہیں کی جائے گی۔
حکومت کے ٹریک ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ لانگ مارچ ڈیکلیریشن پر اس طرح سے عمل نہیں ہو گا جس طرح سے کہا گیا اور جس طرح سادہ لوح لوگ سوچ اور سمجھ رہے ہیں۔ نگران وزیر اعظم کی تعیناتی کا آئین میں ایک طریقہ طے کر دیا گیا ہے ، الیکشن کمیشن بھی آئین کا پابند ہے کسی معاہدے یا ڈیکلیریشن کا نہیں۔ حکومت کے لئے دھرنا ایک بدنامی بن رہا تھا اس نے وقتی طور علامہ کی بہت سے باتیں مان کر اسے ختم کرا لیا۔ علامہ صاحب نے حالات کو اپنے لئے زیادہ ساز گار نہ پا کر لچک کا مظاہرہ کیا ۔چلئے فریقین مطمئن اور قوم ایک امتحان سے باہر نکل آئی ۔ طاہرالقادری عوام کو مسائل اور مشکلات سے تو نجات نہ دلا سکے البتہ ان کے خاتمے کی راہ ضرور ہموار کر گئے۔ اس کے ساتھ یہ بھی واضح رہنا چاہئے کہ یہ حکمران پارٹی کے پاس عوام میں اعتماد بحال کرانے کا بہترین موقع ہے۔ اس کی قیادت کے حوالے سے یہ مشہور ہے کہ معاہدے قرآن و حدیث نہیں ہوتے۔ اگر اب بھی ایسی سوچ سامنے آئی تو عوام میں اس کی ساکھ بری طرح مجروح ہو گی اور جو گارنٹر ہیں ان کی بھی سبکی ہو گی۔ اس لئے حکومت کنٹینر ڈیکلریشن پر اس کی روح کے مطابق عمل کرے۔