مصور پاکستان ڈاکٹر محمد اقبال کس قدر خوش نصیب ٹھہرے۔ انہوں نے مسلمانوں کیلئے آزاد وطن کا خواب دیکھا۔ پھر اس خواب کی تعبیر قائداعظم کے ہاتھوں منصہ شہود پر آئی تو پھر کیسے ممکن تھا کہ آرزوں کے مسکن میں ہر کوئی خواہشوں اور خوابوں کے عذاب نہ پالتا مگر کیا کروں اپنے خوابوں کی کرچیاں کیسے اکٹھی کروں اس شہر فنا میں تو خوابوں کے سوداگروں نے آرزو مندوں کی حسرتوں کو بھی بڑی بیدردی سے کچل دیا۔ حالانکہ فیض صاحب تو بار بار پکار رہے تھے۔
اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفل کر لو
اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا
مگر عہد ساز شاعر کو کیسے بتا¶ں کہ خواب تو نسل در نسل ہمارے آنکھوں میں سجائے جاتے ہیں۔ ایک ایسا خواب جو امیر‘ خوشحالی‘ انصاف‘ امن اور سکون کا تھا وہ تو اسی دن میری پیدائش سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے میرے ذہن کے نہاں خانے میں سمو دیا تھا جب بقول مرشد نسیم انور بیگ کے ایک بوڑھے شخص کو خوابوں کی تعبیر سرزمین پاکستان پر خدا کے حضور اپنی جاں سپرد کرکے حاصل ہوئی تھی لٹا پٹا قافلہ پاکستان کی طرف ہجرت کیلئے گامزن تھا۔ لاکھوں جانوں اور ہزاروں عصمتوں کی قربانیاں دینے کے باوجود جو چند خوش نصیب زندہ بچ گئے تھے انہی خوابوں میں حسین مستقبل کے خواب سجائے منزل کی طرف رواں دواں تھے ایک نحیف و نزار‘ بیمار بوڑھا اپنے نوجوان بیٹے کے کندھے پر سوار بمشکل اپنی زندگی کی ڈوری کو سنبھالتے ہوئے ڈوبتی ہوئی آنکھوں میں ایک ہی خواب سجائے ہوئے اپنے بیٹے سے بار بار سوال کرتا ۔ ”بیٹا“ کیا ہم پاکستان پہنچ گئے ہیں۔ بیٹا بار بار جواب دیتا ”انشاءاللہ جلد پہنچ جائینگے۔ بوڑھا شخص ایک ہی خواب کی تعبیر چاہتا تھا کہ اسکی جان غلام ہندوستان کی سرزمین پر نہ نکلے۔ وہ بڑی مشکل سے اپنی روح کو جسم سے نکلنے کیلئے روک رہا تھا۔ والٹن کیمپ کے قریب پہنچنے پر یکدم بوڑھے اپنی تمام قوت کو مجتمع کرتے ہوئے اپنے بیمار پھیپھڑوں سے گہری سانس لیتے ہوئے اپنے بیٹے سے آخری دفعہ سوال کیا۔ ”بیٹا ہم پاکستان پہنچ گئے ہیں۔ بیٹے نے جواب دیا۔ جی بابا جی۔ بابا جی نے اپنی بانہوں کا حصار اسکی گردن سے ہٹا دیا۔ وہ نیچے گر گئے اور سجدے میں چلے گئے۔ آواز آئی اللہ تیرا شکر ہے لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ اور پھر اس عظیم معمار پاکستان کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گی۔
بوڑھے شخص کی آزردہ خواب کی تکمیل ہوئی۔ اس نے وطن کی مٹی کے حمس سے اپنے جسم و جاں کو آسودہ کر لیا مگر آج اس بوڑھے کی پتھرائی آنکھوں میں تشنہ آرزوں کے خواب کیسے بکھر کر ہم سب کی آنکھوں میں کرچیاں چبھورہے ہیں۔ وہ بوڑھا شخص کیوں سرزمین پاکستان پر اپنی جان سپرد خدا کرنے جا رہا تھا وہ اپنے سہانے خوابوں کی قربانی دے رہا تھا۔ کس لئے تاکہ ہمارے نسل کے عزت اور آبرو سے زندگی بسر کرنے کے خواب پورے ہوں میری آل و اولاد کو ایک ایسی ویلفیئر ریاست کا سایہ میسر ہو جہاں عدل و اجتماعی کے تقاضے پورے ہوں۔ جہاں بھوک‘ ننگ اور افلاس نہ ہو۔ جہاں اسلامی مساوات‘ عدل اور انصاف کے اصول تمام انسانوں کیلئے یکساں ہو جہاں آزادی کیساتھ ہر انسان کو اپنے عقیدے‘ تہذیب اور ثقافت کیمطابق زندگی بسر کرنے کا موقع ملے۔ جہاں ہر انسان کو جان و مال کا تحفظ حاصل ہو۔ جہاں پیار‘ محبت‘ رواداری بھائی چارہ‘ امن و سکون کی روشن کرنیں ہر سو پھیلی ہوں مگر یہ کیا اس بوڑھے سمیت‘ 20 لاکھ قربانیوں اور شہادتوں کے بعد اس لیلائے وطن کے شیدان عشق کے بیٹے سمیت ہم سب اپنے خوابوں کی تعبیر دیکھنے کی حسرت میں گذشتہ 65 سالوں سے خوابوں کے سوداگروں کے ہاتھ لٹ چکے ہیں مگر وہ لوٹ مار جو متروکہ وقف کی املاک سے شروع ہوئی اور آج تک اربوں کھربوں کی کرپشن کیساتھ جاری ہے اس نے وطن عزیز کیلئے راہ حیات میں شہادتوں کے دیب روشن کرنے والوں کیلئے زندگی اجیرن بنا ڈالی ہے اور میرے سمیت وہ سب ویران آنکھوں‘ شکسہ دلوں کے ساتھ پکار رہے ہیں۔
سوادِ درد میں تنہا کھڑا ہوں
پلٹ جا¶ں مگر موسم نہیں ہے
جبکہ وہ موقع پرست جنہیں یہاں ہر نعمت ملی‘ دولت‘ شہرت‘ اقتدار اور عروج نصیب ہوا کبھی اسکے لیڈران کو بابائے قوم کی عظمت اور مرتبے سے تکلیف ہوتی ہے تو کبھی متحدہ ہندوستان میں انہیں اپنے کم تر ماضی کی حسین یاد یہ حسرت پیدا کرتی ہے کہ شاید وہ ہجرت نہ کرتے تو زیادہ طاقتور اور خوشحال ہوتے مگر تاریخ پاکستان سے واقف ہر شخص جانتا ہے کب تقسیم پاکستان کے وقت ان علاقوں کے مسلمانوں کو یہ مجبوری تھی کہ وہ لازماً ہجرت کریں۔ متحدہ ہندوستان میں اقلیتی وہ علاقے جہاں مسلمان اقلیت میں تھے وہ تو اپنی معاشی خوشحالی کیلئے 1951ءتک پاکستان آتے رہے مگر کیا کیا جائے....ع
منزل انہیں ملی جو شریک ِسفر نہ تھے
میری خواب تو اسی وقت ٹوٹ کر بکھر گئے جب میرا قائد قیام پاکستان کے 13 ماہ بعد ہی اللہ کو پیارے ہو گئے۔ 13 ماہ کی یہ مدت یوں بھی مسائل کے ہجوم اور ہمالیائی مشکلات کا مقابلہ کرنے میں گزر گئی اور قائداعظم کی سنگین علالت کی وجہ سے ان کیلئے ریاستی خطوط کا تعین کرنا ممکن نہ ہو سکا اور ان کے بعد آنے والے حکمرانوں کو نہ تو عدل اجتماعی کے مقصد سے قلبی دلچسپی تھی اور نہ ہی انکے مفادات ان خطوط پر کام کرنے کی اجازت دیتے تھے۔ ایوب خاں کے طویل دور حکومت میں اچھی خاصی صنعتی ترقی ہوئی لیکن امیروں کے خوابوں کو تعبیر ملی اور غریبوں کو محض خواہش اور خواب کے درمیان اس حسرت پر زندہ رکھا گیا کہ صنعتی ترقی کیلئے دولت کا ارتکاز چند ہاتھوں میں ضروری ہے اور اس میں کوئی ہرج نہیں کہ غریب عوام کی ایک نسل محرومی کا شکار رہے مگر یہ کیا کہ تیز رفتار صنعتی ترقی سے جو بہت سے دولت پیدا ہوئی وہ Trickle down یعنی عمل تقطیر سے عوام کے نچلے طبقے تک پہنچی۔ بھٹو نے بھی روٹی کپڑا مکان کے خواب سچے مگر سمندر سے ملے پیاسے کو شبنم‘ صنعتی مزدوروں اور زرعی مزدوروں کو تھوڑا ریلیف ملا یہ رزاقی نہیں بخیلی ہے مگر مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے روپے کی قیمت میں 131 فیصد کمی سے گرانی کے سیلاب نے پاکستان کو ویلفیئر اسٹیٹ نہ بننے دیا۔ پھر امیروں نے سیاست‘ معیشت‘ مذہب بیورو کریسی کاروباری اور مالی اداروں پر قبضہ کرکے ہر رنگ کا چولا پہن کر بہروپ بدل بدل کر ہماری ناآسودہ آرزو¶ں اور تشنہ خوابوں کی تعبیر برائے فروخت دوبارہ سامراج کے ہاتھوں گروی رکھ دی۔ جمہوریت لے لو۔ جمہوریت کے خواب سے اپنے بھوک‘ ننگ اور افلاس کا علاج کرو۔ کیا ہوا روٹی نہیں ہے کیا ہوا تعلیم‘ روزگار اور صحت کی سہولتیں نہیں ہے۔ کیا ہوا آپ دہشت گردی سے مر رہے ہیں کیا ہوا 18 کروڑ عوام کو بمشکل ایک وقت کا کھانا مل رہا ہے کیا ہوا پاکستان 182 ممالک میں شرح خواندگی کے لحاظ سے 159واں نمبر پر ہے کیا ہوا ہمارے ملک پر بیرونی قرضوں کا بوجھ 65.7 ملین ڈالرز تک پہنچ چکا ہے۔ کیا ہوا پاکستان کا انسانی ترقی کے انڈیکس میں 134ویں نمبر پر ہے کیا ہوا پاکستان کا انسانی ترقی کے انڈیکس میں 134 ویں نمبر پر ہے۔ 8 کروڑ لوگ انتہائی ابتدائی طبی سہولتوں سے محروم ہیں۔ سات کروڑ لوگوں کو پینے کا صاف پانی دستیاب نہیں ہے۔ ہر سال 10 لاکھ بچے غذائی قلت کا شکار ہو کر ابتدائی عمر ہی میں فوت ہو جاتے ہیں۔ ہر سال 30 ہزار مائیں دوران زچگی فوت ہو جاتی ہیں۔ 50 ہزار بچے پانچ سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے فوت ہو جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہمارے مفکرین یہ کہتے ہیں کہ اگر ہم نے عوام کی حالت بہتر نہ بنائی تو یہاں ایک خونی انقلاب آجائیگا۔ جی ہاں طاہر القادری اپنے مفادات کی بات کر رہے ہیں‘ مگر سنیں مفلوک الحال لوگوں کی یہ بات؟ آپکو سردی نہیں لگتی ہے کھلے آسمان کے نیچے بیٹھے ہیں۔ جواب دیا گیا گھر میں کونسی چھت ہے کون سا ایندھن ہے کونسا لحاف ہے اور کونسے بجلی اور گیس ہے۔ یہ نوشتہ دیوار ہے خوابوں کے سودا گروں کیلئے جنہیں اپنے پیٹ بھرنے‘ محلات تعمیر کرنے اور بیرونی ممالک ڈالرز کا انبار اکٹھا کرنے سے فرصت نہیں۔ میں جب اس ملک کے حکمرانوں کے حسین و جمیل بچے دیکھتا ہوں تو مجھے وہ شہزادی ضرور یاد آتی ہے جو انقلاب فرانس کے وقت اپنے محل کی بالکونی میں بیٹھ کر میلے کچیلے‘ بھوک اور افلاس کا شکار لاکھوں غریب عوام‘ بادشاہ کے محل کے باہر نعرے لگا رہے تھے کہ ہمیں کھانے کیلئے روٹی دو شہزادی نے اپنے رحمان ملک جیسے مصاحب سے پوچھا۔ انکا کیا مسئلہ ہے اگر انہیں روٹی نہیں ملتی ہے تو کیک کھا لیں۔ رحمان ملک صاحب طاہر القادری کیلئے لوگ باہر نہیں نکلیں ہیں۔ بے شک آپ اور قمر الزمان کائرہ انکا جس قدر چاہیں تمسخر اڑائیں اس سے کچھ نہیں فرق پڑے مگر چند سالوں بعد اسی جمہوریت میں ملین مارچ کی قیادت امرا اور حکمران کے محلوں کی طرف لانگ مارچ کی قیادت کوئی طاہر القادری نواز شریف یا عمران خان نہیں کریگا اس کی قیادت بلوچستان‘ پختونخواہ‘ پنجاب کے مفلوک الحال بیروزگار اور ان لاشوں کے وارثین کرینگے جو ریاستی بے حسی سے روزانہ شہید ہو رہے ہیں۔ ہاں میں آخری بات خوابوں کے سوداگروں سے یہ کہوں گا۔ کہتے ہیں کہ پوری انسانی تاریخ جو سب سے زیادہ خوبصورت گردن انقلابیوں کی گلوٹین کا شکار ہوئی وہ اسی بدنصیب شہزادی کی تھی۔ کیونکہ اب تو یہ وقت آچکا ہے۔
خواب اور خواہش کے درمیان نہیں رہنا
یہ جہاں ہو جیسا اب یہاں نہیں رہنا