لندن (تحقیقاتی رپورٹ / خالد ایچ لودھی) پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال میں جس طرح ڈاکٹر طاہر القادری کو پراجیکٹ کیا گیا اور پھر جس انداز میں پاکستانی میڈیا میں ان کی شخصیت کو پذیرائی حاصل ہوئی، یہ ایک معمہ ہے! اس پراسرار معمے میں جن پراسرار خفیہ ہاتھوں نے جس سرگرمی سے کام کیا ان کے بارے میں انکشافات منظر عام پر آنا شروع ہو گئیں، 7 جنوری کے نوائے وقت میں لندن سے فائل کردہ سٹوری شائع ہو چکی ہے جس میں پاکستان میں ماڈرن علما اور مذہبی سکالروں کو پاکستان کی سیاست میں سیٹ اپ کے حوالے سے امریکی روڈ میپ کا تذکرہ کیا گیا تھا اسی روڈ میپ کے حوالے سے انتہائی معتبر مغربی سفارتی ذرائع نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری اپنے کینیڈا میں قیام کے دوران مسلسل امریکی رابطوں میں رہے ہیں اور اس ضمن میں امریکی تھنک ٹینک سے وابستہ بعض شخصیات نے ڈاکٹر طاہر القادری سے متعدد بار ملاقاتیں بھی کیں۔ اس دوران امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی بھی کسی کہ کسی حوالے سے ان سرگرمیوں میں ملوث رہے ہیں۔ بعض ذرائع اس امر کی بھی تصدیق کرتے ہیں کہ بیرون ملک قیام کے دوران ڈاکٹر طاہر القادری سے صدر آصف علی زرداری کا رابطہ بھی رہا۔ امریکی حکومت کے مشیروں نے پاکستان میں دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے ڈاکٹر طاہر القادری سے ملک کے سیاسی نظام میں کردار ادا کروانے کی غرض سے اپنی سفارتی کوششیں بھی شروع کر رکھی تھیں اب جبکہ ملکی سیاست میں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف دونوں پارٹیاں پیپلز پارٹی کے لئے مشکلات پیدا کر رہی تھیں اور خاص طور پر میاں نوازشریف اور میاں شہباز شریف اپنی مقبولیت کا گراف برقرار رکھے ہوئے ہیں اور عمران خان دن بدن اپنی ناقص حکمت عملی کی بنا پر اپنی مقبولیت کھو رہے ہیں۔ ان حالات میں ڈاکٹر طاہر القادری کو کینیڈا سے خاص طور پر پاکستان لایا گیا، یہ وہی فارمولا ہے جس کے تحت صدر آصف علی زرداری نے ماضی میں یونس حبیب کو دبئی سے بلوا کر ملک میں اصغر خان کیس کے حوالے سے مردہ گھوڑے میں جان ڈالنے کی ناکام کوششیں کی تھیں اس بار ڈاکٹر طاہر القادری اور ان کی فیملی کو پاکستان لانے میں جس شخصیت نے آصف علی زرداری کے خفیہ ایجنڈے پر عمل کروایا یہ شخصیت موجودہ حکومت کے اتحادی سیٹ اپ میں اہم عہدے پر فائز ہے اور وہ کسی صورت میں بھی پنجاب میں شریف برادران کو آئندہ عام انتخابات میں کامیاب نہیں دیکھنا چاہتی۔ دوسری جانب ڈاکٹر طاہر القادری کے لانگ مارچ اور دھرنے سے جو مقاصد خود منہاج القرآن نے حاصل کئے وہ اپنی جگہ عوامی تحریک کو آئندہ انتخابات میں لانے کے لئے ایک ریہرسل کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن اس کا بڑا فائدہ صدر آصف علی زرداری نے خود اٹھایا ہے جس کے تحت صدر زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کو اقتدار میں رہنے کے لئے مضبوط اتحادی ڈاکٹر طاہر القادری کی شکل میں مل گیا ہے۔ طے پانے والا معاہدہ سیاسی اور قانونی حلقوں میں اس بنا پر زیر بحث رہے گا۔ اس معاہدے کی قانونی اور آئینی حیثیت کیا ہو گی؟