”میثاقِ جمہوریت۔۔۔دو نمبر“

محترمہ بے نظیر بھٹواور میاں نواز شریف نے ، 14مئی 2006ءکو ،لندن میں ، جِس معاہدے پر دستخط کئے تھے، اُس کا نام تھا۔ ”مِیشاقِ جمہوریت ایک نمبر“۔17جنوری 2013ءکو، علّامہ طاہر اُلقادری اور وزیرِ اعظم راجا پرویز اشرف نے جِس معاہدے پر دستخط کئے، اُس کا نام ہے۔”اسلام آباد لانگ مارچ معاہدہ“۔ چونکہ یہ جمہوریت سے متعلق دوسرا معاہدہ ہے اِس لئے اِس کا نام ہُوا۔”میثاقِ جمہوریت دو نمبر“۔ اِس میثاق کے لئے ، پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ق، ایم کیو ایم، عوامی نیشنل پارٹی کے، با اختیار قائدِین اور فاٹا کی طرف سے سینیٹرعباس آفریدی نے، اسلام آباد کے ڈی چوک میں ایستادہ بم پروف کنٹینر میں علّامہ القادری سے مذاکرات کئے۔معاہدہ طے پا گیا تو، پیپلز پارٹی کے سیّد خورشید شاہ ، قمر زمان کائرہ اور مسلم لیگ ق کے مشاہد حسین سیّد نے، وزیرِ اعظم ہاﺅس جا کر،وزیرِ اعظم کے وُکلاءکی حیثیت سے، راجہ پرویز اشرف سے، اُسی انداز میں، دستخط کرائے جِس طرح ہمارے یہاں، نکاح کے وقت دُلہن کے کمرے میں جا کر،اُس کے وکلاءاُس سے، نکاح نامے پر دستخط کراتے ہیں۔اِس دوران حکومتی پارٹی کی مذاکراتی ٹیم کے باقی 7ارکان علّامہ القادری کے پاس رہے۔ ٹی وی کیمروں نے، علّامہ اُلقادری کو۔” انقلابی دُلہا “۔کے رُوپ میں ہی دکھایا۔
1400ءمیں آدھی دنیا کے فاتح، امیر تَیمور نے، تُرکی کے داراُلحکومت انگورہ (موجودہ انقرہ) کو فتح کر کے، سلطان با یزید یلدرم کو ایک بڑے پنجرے میں بند کردیا اور اُس کی موت تک، اپنے ساتھ لئے پھرتا رہا۔ علّامہ القادری ۔” 40لاکھ کا لشکر“۔ لے کر، اسلام آباد پہنچے ۔یہاں با یزید کی حکومت نہیں تھی، چنانچہ انہوںنے ،صدر زرداری ، وزیراعظم راجا پرویز اشرف اور تمام وفاقی وزراءکو۔ ”یزیدیو“۔ کہہ کر ، سُلطان با یزید کی یاد تازہ کی۔انہوں نے ،لاہور سے روانہ ہونے سے پہلے۔ ”انقلاب“۔ لانے کا جو وعدہ کیا تھا، وہ توآگیا ۔ اگر الیکٹرانک یا پرنٹ میڈیا کے کسی اینکر پرسن یا رپورٹر کو، یہ۔ ”انقلاب“۔دکھائی نہ دے تو، اُسے اپنی آنکھوں کا علاج کرانا چاہیئے کہ کہیں اُس کی آنکھوں میں موتِیا تو نہیں اُتر آیا؟۔
علّامہ صاحب نے ، 17جنوری کو، دن ایک بج کر 35منٹ پر ،تین بجے تک کی مہلت دی تھی کہ۔ صدر زرداری اپنے وزیروں کو ساتھ لے کر اُن کے بم پروف کنٹینر میں مذاکرات کے لئے آجائیں۔ ورنہ۔۔۔!۔ صدر زرداری ،علّامہ القادری کی۔ ”ورنہ“۔ کا مطلب سمجھ گئے۔ چنانچہ ،اُن کی ہدایت پر، وزیرِ اعظم نے 10رُکنی ٹیم۔”شیخ اُلاِسلام “۔ کی خدمت میں بھیج دی۔ صدر زرداری اور وزیرِ اعظم، دونوں اپنی بحالی پر خوش تھے ،کہ علّامہ القادری نے تو، اسلام آباد تشریف لاتے ہی، انہیں اور تمام وفاقی وزراءکو برطرف کر دیا تھا ۔وفاقی وزراءکے بارے میں، علّامہ القادری نے فرمایا تھا کہ۔ ”میں وفاقی وزراءکو جوتے کی نوک پر رکھتا ہوں۔ جن لوگوں نے علّامہ القادری کی زیارت نہیں کی تھی، انہیں پتہ چلا کہ۔”علّامہ صاحب نوک دار جوتا پہنتے ہیں“۔
چودھری برادران ،علّامہ صاحب سے مذاکرات کے لئے، ملک محمد ریاض بحریہ کو ساتھ لے گئے تھے،علّامہ صاحب نے ملک صاحب کو ناپسندیدہ قرار دے کر نکال دیا تھا ۔ اگلے روز علّامہ صاحب کا بیان ا ٓیا کہ ۔” پوری کائنات کی دولت دے کر بھی کوئی شخص میرا ایک جوتا بھی نہیں خرید سکتا “۔ اُس روز سے ملک ریاض اپنے وُکلاءسے مشورہ کرتے پھر رہے ہیں کہ ۔” مَیں کائنات کی ساری دولت کا مالک کیسے بن سکتا ہوں۔ ؟ “۔ علّامہ القادری نے، لانگ مارچ کے شرکاءسے، خطاب کرتے ہوئے ، اپنی برادری ( اعوان برادری) کے رحمٰن ملک کو ” شیطان ملک“ ۔کہا۔( مذاکراتی ٹیم کے سامنے بھی) کسی نے بُرا نہیں منایا ۔ رحمٰن ملک بھی کہتے ہیں کہ ۔” علّامہ صاحب میرے بزرگ ہیں ۔ وہ مجھے پیار سے شیطان کہتے ہیں ۔ اگر میں اصلی شیطان ہوتا تو لانگ مارچ کے شُرکاءمجھے کنکریاں نہ مارتے “؟۔مشاہد حسین سیّد نے کہا ۔” مجھے اور علّامہ القادری کو ،بیک وقت پنجاب یونیورسٹی سے نکالا گیا تھا “۔ لیکن مشاہد صاحب نے یہ نہیں بتایا کہ ۔وہ ” بم پروف کنٹینر “ خریدنے کے لئے پیسے اکٹھے کیوں نہیں کر سکے؟ ۔
 علّامہ القادری نے، خود کو ریاست کا Stakeholdersثابت کر دیا ہے ۔ وفاقی حکومت اورعلّامہ القادری نے، پاک فوج اور عدلیہ کے نمائندوں کو مذاکرات میں شامل کرنے پر زور نہیں دیا ، نہ ہی پارلیمنٹ میں حزبِ اختلاف کے قائدین اور پارلیمنٹ سے باہر کسی بھی سیاسی لیڈر کو زحمت دی، عمران خان نے عین وقت پر اپنا ۔” سونامی مارچ“ علّامہ صاحب کے ۔ ” لانگ مارچ“ ۔کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر میں اتارنے سے انکار کر کے ثابت کر دیا ہے کہ وہ اور اُن کی تحریک ِ انصاف کے، سارے امیدوارانِ اسمبلی ۔” صادق اور امین“۔ نہیں رہے۔” میثاقِ جمہوریت دو نمبر “۔ کے تحت آئندہ ہر قسم کے مذاکرات، لاہور میں ، تحریکِ منہاج اُلقرآن کے سیکرٹریٹ میں ہوں گے ۔ شریف برادران اور اُن کی حکومت کو ڈرانے دھمکانے کے لئے، علّامہ القادری کے لئے ، 20لاکھ کا لشکر تیار کرنااُن کی بائِیں مُٹھی کا کھیل ہے کہ اُن کی دائِیں مُٹھی میں تو 40لاکھ لشکر کے جذبات بند ہیں ۔میں صدر زرداری کی خدمت میں کچھ مشورے پیش کر رہا ہوں ۔ گر قبول اُفتد ،ز ہے عِزّو شرف !
صدر زرداری فوری طور پر ، علّامہ القادری کی خدمت میں کم ازکم ۔” نشانِ حیدر“۔ پیش کریں اور ایک آرڈینس جاری کر کے انہیں ۔” ریاست کا رُوحانی پیشوا “۔ اور ” شیخ اُلآئین “۔ قرار دیںاور اُن کا ،بلا روک ٹوک ایوانِ صدر اور وزیرِ اعظم ہاﺅس میں، آمدورفت اور قیام و طعام کا استحقاق تسلیم کِیا جائے۔حکومتی اتحاد کی ساری جماعتیں ، تحریکِ منہاج اُلقرآن کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی 40فی صد نشستیں اپنے کوٹے میں سے دیں ۔ جِن مرد و خواتین نے اپنی چیزیں ، مکان اور زیور وغیرہ بیچ کر لانگ مارچ میں شرکت کی ، انہیں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں سے معاوضہ دِیا جائے ۔ علّامہ القادری کی تصنیف کردہ 550کتابوں کو کالجوں اور یونیورسٹیوں کے نصاب کا حِصّہ بنا دیا جائے اوراُن سے ،اُن کابم پروف کنٹینر ، مُنہ مانگی قیمت پر خرید کر اُسے، قومی یادگار کے طور پر محفوظ کر لیا جائے ۔ سی ڈی اے نے، لانگ مارچ کے شُرکاءکو جو 40ہزار لوٹے تحفے میں دئیے تھے ، وہ چھوڑ گئے ہیں اور اسلام آباد کی۔Green belts پر بہت ساری کھاد بھی ۔ میری تجویز ہے کہ اِس کھاد سے لوٹوں میں، کینیڈا سے ،کسی اعلیٰ قسم کے پھول کے بیج منگوا کر ۔” گُلِ جمہوریت“۔ (جمہوریت کا پھول) اُگایا جائے ۔
”میثاقِ جمہوریت دو نمبر“ کی ایک کاپی اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور تمام سربراہانِ ریاست کو بھجوائی جائے ایک ایک کاپی ، ایوانِ صدر ، وزیرِاعظم ہاﺅس ، پارلیمنٹ ہاﺅس اور اتحادی جماعتوں کے دفتروں میں بھی لٹکائی جائے ۔صدر زرداری اوربلاول بھٹو ،میثاق کی کاپیاں ۔ ذوالفقار علی بھٹواور محترمہ بے نظیر بھٹو کی قبروں پر ۔چودھری شجاعت حسین ، مزارِ قائدِاعظمؒ ۔ اور اسفند یار ولی ۔ جلال آباد( افغانستان ) میں اپنے دادا ، باچا خان (خان عبد الغفار خان ) کی قبر پر خود لے جا کر رکھیں ۔جناب فاروق ستّار ، دو کاپیاں لندن لے جائیں۔ ایک الطاف بھائی کے لئے اور دوسری ملکہءبرطانیہ کے لئے ۔ ملکہ ءکینیڈا کے لئے کاپی کینیڈین علّامہ القادری خود لے جائیں گے ۔ میری بھی ننھی سی درخواست ہے کہ، فاٹا کے سینیٹر محترم عباس آفریدی ایک کاپی لے کر ، میرے گھر کھانے یا چائے پر، تشریف لائیں کہ، میرے سب سے چھوٹے بیٹے، شہباز علی چوہان کی بیوی ۔ عنبرین بھی آفریدی ہے ۔ خان سلطان فاروق خان آفریدی کی بیٹی !۔

ای پیپر دی نیشن