لاہور ( اپنے نامہ نگار سے) چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے کہا کہ آئین کے تحت ملک میں جمہوری نظام ہے اس میں مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ کے تین ستونوں کا کردار وضع کیا گیا ہے، اختیارات کی اس تکون میں عدلیہ کا کردار انتہائی اہم ہے تا کہ اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ ریاست کا ہر ستون اپنی حدود اور قانونی اتھارٹی میں رہ کر کام کرے جب بھی کوئی ستون اپنی اتھارٹی سے تجاوز کرے گا عدلیہ کو مداخلت کرنا پڑے گی اس وجہ سے آئین بنانے والوں نے ایسی شقیں بنائیں تا کہ اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ عدلیہ ہر قسم کی مداخلت اور دبائو سے آزاد رہے، آئین کے دیپاچے میں یہ بات شامل ہے کہ گورننس کے نظام میں عدلیہ کی آزادی کو مکمل تحفظ حاصل ہوگا۔ آئین کے تحت عدلیہ نے اس امر کو یقینی بنانا ہے کہ ریاست کا ستون اپنی حدود اور قانون اتھارٹی میں رہ کر کام کرے جب بھی کوئی ریاستی ستون حد سے تجاوز کرے گا تو عدلیہ کو مداخلت کرنا پڑیگی، عدلیہ کے پاس آزادی کو برقرار رکھنے کیلئے کوئی ہتھیار نہیں ہوتے صرف اخلاقی اتھارٹی اور عوام کا اعتماد ہوتا ہے آج عدلیہ بروقت اور آئینی حدود میں رہ کر فیصلوں سے عوام کی داد رسی کر کے معاشرے میں امن اور مساوات لا رہی ہے، آئین کے تحفظ کیلئے عدلیہ کو مزید مضبوط ہونا ہے، آئین کی بالا دستی اور قانون کی حکمرانی کے بغیر ترقی اور خوشحالی کا خواب محض خواب ہی رہ جائیگا، وہ سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں سپریم کورٹ میں وکالت کرنے کے لئے اہل قرار دیئے گئے لاہور، ملتان، بہالپور، فیصل آباد اور رحیم یار خان سمیت دیگر اضلاع کے 82 وکلاء کے رول آف سائن کی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔ تقریب میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر کامران مرتضیٰ اور سیکرٹری آصف محمود چیمہ نے خصوصی طور پر شرکت کی۔ بار کی چیف جسٹس کی تقریب میں شرکت عرصہ بعد ہوئی ہے بار کے عہدیداروں کو مکمل پروٹوکول فراہم کیا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ صرف لکھی ہوئی گارنٹی ہی عدالتی نظام کے تحفظ کے لئے کافی نہیں عدلیہ کے پاس اپنی آزادی کو برقرار رکھنے اور فیصلوں کے نفاذ کے لئے کوئی ہتھیار نہیں ہوتے، عدلیہ کے پاس صرف اخلاقی اتھارٹی اور ادارے پر عوام کا اعتماد ہوتا ہے جو نہ صرف فیصلوں پر عمل درآمد کو یقینی بناتا ہے بلکہ یہ تجاوزات کے خلاف حصار کا کام بھی کرتا ہے عدلیہ کی آزادی کے لئے چلائی جانے والی مہم عوام کا عدلیہ پر اعتماد کی ایک بے نظیر مثال ہے۔ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ عدلیہ محض ججوں پر مشتمل ایک ادارہ نہیں یہ ان تمام افراد اور اداروں پر مشتمل ہے جنہوں نے خود کو قانون کی حکمرانی کے نفاذ اور انصاف کی فراہمی کے لئے وقف کر رکھا، جج، پراسیکوٹر اور وکلاء معاشرے میں استحکام اور امن کے قیام کے لئے اہم کردار ادا کرتے ہیں وکلائ، بحرانوں میں انسانی حقوق اور بنیادی آزادی کے لئے ہر اول دستہ کا کردار ادا کرتے ہیں۔ چیف جسٹس نے وکلاء کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ قابل فخر ورثہ ہیں لہذا وکلاء اپنی ایمانداری، قابلیت اور ججوں کے احترام سے نئے آنے والے وکلاء کے لئے مثال قائم کریں۔ آج اس تقریب سے وکلاء نے جو احترام کمایا ہے اگر آپ عدالتوں میں پیش ہونے سے انکار کریں گے اور رویہ اچھا نہیں رکھیں گے تو یہ احترام رسک پر ہو گا، آپ کی تمام کوششیں اس انداز سے ہونی چاہئے کہ آپ کی عزت اور احترام میں اضافہ ہو۔ ججوں اور وکلاء کی ذمہ داری ہے کہ وہ قانون اور آئین کی تشریح کریں مقدمات کے فیصلہ کے لئے عدالتوں مکمل اور بہتر معاونت ضروری ہے، اگر وکلاء اپنے کیسوں کی اچھی تیاری کریں گے، جھوٹ بے بنیاد کیس نہیں لیں گے اور غیر ضروری التواء نہیں مانگیں گے تو آپ نہ صرف اپنے موکل سے احترام حاصل کریں گے بلکہ مقدمات بلکہ مقدمات کے فیصلوں سے معاشرے میں بھی احترام پائیں گے اس طرح آپ لوگوں میں ساکھ بڑھائیں گے۔ لوگ پورے اعتماد کے ساتھ عدالوں سے رجوع کریں گے، انصاف کی عمل داری میں بار کا کردار انتہائی اہم ہے، ایک مظبوط بار عدلیہ کو مضبوط کرتی ہے تا کہ وہ آزادانہ فیصلے کر سکے۔ آج عدلیہ بروقت اور آئینی حدود میں رہ کر فیصلے کر رہی ہے، عوام کی داد رسی کر کے معاشرے میں امن اور مساوات لا رہی ہے، ریاست کے اہم ترین ستوں ہونے کے ناطہ آئین کے تحفظ کے لئے عدلیہ کو مزید مظبوط ہونا ہے۔ کوئی ملک اپنے عوام کی ترقی اور خوشحالی کے خواب کو آئین کی بالا دستی اور قانون کی حکمرانی کے بغیر شرمندہ تعبیر نہیں کر سکتا، ہمیں اس پیغام کو اپنے خون، خیالات اور کام میں شامل کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ ذہن میں رکھنا ہو گا کہ اس کے بغیر خواب صرف خواب اور امید صرف امید ہی رہ جائے گی۔ معاشرے کے بطور با شعور اور حساس ارمان کے ناطہ ہمیں ملک میں بڑھتے ہوئے پر تشدد واقعات، مسلمانوں کی طرف سے مسلمانوں کے قتل اور مذہب کے نام پر قتل و غارت گری پر تشویش ہونی چاہئے، اس امر کی ضرورت ہے کہ ہم دنیا کو امن اور برداشت کا پیغام دیں، ہمیں دوسری اقوام پر اپنی تشویش ظاہر کی چاہئے وہ اور ہم ایک ہی سیارے پر رہنے والے ہیں ہمارے مفادات میں ہمیں ان کو بتانا ہے کہ اسلام ایک خوبصورت چہرہ ہے جو تشدد کو نا پسند کرتا ہے۔ جمہوریت صرف انتخابات کے انعقاد، ووٹ دینے کا حق اور عقیدے اور اظہار رائے کی آزادی کا نام نہیں یہ زندگی گزارنے کا طریقہ کار ہے۔ ہم ڈاکٹر، انجینئیر وکیل، جج، بیٹے، بیٹیاں، والد ین، جو بھی ہوں بطور شہری ہم سب برابر ہیں، عہدوں کا ہماری نسل، رنگ اور زبان سے کوئی تعلق نہیں۔ جمہوریت صرف طریقہ انتخاب نہیں بلکہ مکمل طرز زندگی ہے، عدلیہ کے فیصلوں پر عمل کئے بغیر اس کی آزادی کو برقرار رکھا جا سکتا ہے اور نہ ہی عوام کا عدلیہ پراعتماد برقرار رکھا جا سکتا ہے۔ آئین میں عدلیہ کی آزادی کا تحفظ یقینی بنایا گیا ہے، عدالتی خودمختاری کے لئے عوام اور وکلاء کی تحریک عدلیہ پر اعتماد کی ضامن ہے۔آئین کی تشریح کرنا عدلیہ کا اختیار ہے۔وکلاء عدالتوں کا بائیکاٹ کرنے کی بجائے اسکی معاونت کریں کیوں کہ مضبوط بار ہی عدلیہ کی خودمختاری کے لئے لازم ہے۔ کوئی بھی ملک آئین اور قانون کی بالادستی کے بغیر تقری نہیں کر سکتا۔ مذہب کی بنیاد پر کسی کی جان لینا اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ ہمیں دنیا کو امن کا پیغام دینے اور برداشت کا کلچر فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے۔ ہمیں بتانا ہو گا کہ اسلام امن و آشتی کا مذہب ہے۔ قانون کی نظر میں سب برابر کے شہری ہیں کسی بھی فرد کو اپنے پیشے یا مرتبے کی بناء پر کوئی فوقیت حاصل نہیں۔ عدلیہ اپنے فیصلوں کے ذریعے امن کی بحالی اور سماجی انصاف کی فراہمی میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ شہریوں کو آئین کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے فوری اور سستا انصاف فراہم کیا جا رہا ہے۔ آئی این پی کے مطابق جسٹس تصدق حسین جیلانی نے کہا کہ انصاف کی فراہمی میں کسی قسم کی رکاوٹ برداشت نہیں کی جائیگی۔ عدلیہ کے پاس فیصلوں کے نفاذ کیلئے اخلاقی قوت موجود ہے اور وکلا آزاد عدلیہ کی سر بلندی کیلئے تعاون جاری رکھیں‘ قانون کی نظر میں ہر ادارہ برابر ہے اور کسی کا مقام اور مرتبہ آئین و قانون سے اسے بالا تر نہیں کرتا، آئین کی تشریح عدلیہ کا کام ہے، مذہب کی بنیاد پر کسی کی جان لینا اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔ معاشرے میں امن کے قیام کیلئے برداشت کے کلچر کو فروغ دینا ہوگا۔ آئین کی تشریح کرنا عدلیہ کا کام ہے۔ وہ اپنے فیصلوں سے امن بحال کرنے اور انصاف مہیا کرنے میں کردار ادا کر رہی ہے۔