مفتی عثمان یار 2 ساتھیوں سمیت سپردخاک، علماء کے قتل کا بدلہ لینگے: طالبان

کراچی (این این آئی) جمعیت علمائے اسلام (س) کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل مفتی عثمان یار خان اور ان کے 2ساتھیوں کو آہوں اور سسکیوں کے درمیان گلستان جوہر میں سپردخاک کردیا گیا۔ قبل ازیں مفتی عثمان یار خان اور ان کے ڈرائیورکی نمازجنازہ جامعہ دارالخیر گلستان جوہر میں ادا کی گئی۔ نماز جنازہ مفتی عثمان کے والد مفتی اسفندیار خان کی اقتداء میں ادا کی گئی۔ نماز جنازہ کے موقع پر سکیورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے تھے۔ نمازجنازہ میں جمعیت علمائے اسلام (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق، جمعیت علمائے اسلام خیبرپی کے مولانا محمد یوسف، ملی یکجہتی کونسل سندھ کے صدر اور جماعت اسلامی کے رہنما مولانا اسد اللہ بھٹو، اہلسنت والجماعت کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات مولانا اورنگزیب فاروقی، مولانا اسد تھانوی، حافظ احمد علی، جمعیت علمائے اسلام (ف) کراچی کے امیر قاری محمد عثمان ،جماعۃ الدعوۃ کراچی کے امیر مزمل اقبال ہاشمی ،جمعیت علماء پاکستان کے مفتی غلام غوث صابری ، عبدالمنان انور ،مدارس کے طلباء ،مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں سمیت سیاسی ،سماجی تنظیموں کے رہنماؤں اور عوام کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔ مولانا عثمان یار خان معروف عالم دین سواد اعظم مولانا اسفند یار خان کے صاحبزادے اور جمعیت علمائے اسلام (س) کے رہنما تھے۔ مولانا اسفند یار خان نے 80ء کی دہائی میں مقبول مذہبی جماعت سواد اعظم اہلسنت میں الجماعت پاکستان میں مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ دریں اثناء کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے جمعیت علماء اسلام سے ان کے مرکزی رہنماء مولانا مفتی عثمان یار خان پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ مفتی عثمان امیر خالد خراسانی کے استاد تھے، علماء کے خون کا بدلہ لینگے۔ ہفتے کو کالعدم تحریک طالبان کے رہنماء احسان اللہ احسان نے اپنے بیان میں کہا کہ جمعیت علمائے اسلام (س) کے مرکزی رہنما مولانا مفتی عثمان یار خان کالعدم تحریک طالبان پاکستان مہمند ایجنسی کے امیر خالد خراسانی کے استاد تھے، مفتی عثمان یار خان کیساتھ دہشت گردی کا نشانہ بننے والے حاجی رفیق خالد خراسانی کے چچا ہیں، احسان اللہ احسان نے کہا کہ طالبان اس واقعہ کی مذمت کرتے ہیں اور وہ اپنے علماء کے قاتلوں سے خون کا بدلہ لیں گے ۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...