لاہور (خصوصی رپورٹر) سندھ میں سید غوث علی شاہ کے بعد ممتاز بھٹو بھی وزیراعظم نوازشریف سے ناراض ہو گئے ہیں۔ ممتاز بھٹو کے قریبی ذرائع نے بتایا ہے کہ سندھ حکومت کی جانب سے ان کے کارکنوں کے خلاف انتقامی کارروائیوں کا سلسلہ تواتر سے جاری ہے جسے وزیراعظم نوازشریف، وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان اور وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہبازشریف کے نوٹس میں لایا جاتا رہا لیکن انہوں نے سابق سندھ نیشنل فرنٹ کے کارکنوں کے خلاف پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت کی انتقامی کارروائیوں کی روک تھام کروانے میں کوئی دلچسپی نہیں لی۔ ممتاز بھٹو کے دست راست اور سندھ مسلم لیگ (ن) کے نائب صدر انور گجر نے تصدیق کی ہے کہ سندھ میں سابق نیشنل فرنٹ کے کارکنوں کے خلاف سندھ حکومت کی انتقامی کارروائیوں سے پیدا شدہ صورتحال پر غور کرنے اور سندھ بھر میں اپنے دوستوں سے مشاورت کرنے کیلئے سابق سندھ نیشنل فرنٹ کی ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس کل سوموار 20جنوری کو لاڑکانہ میں بلایا گیا ہے جس میں مستقبل کے سیاسی لائحہ عمل کے حوالے سے اہم فیصلے کئے جائیں گے۔ واضح رہے بھٹو قبیلے کے سردار ممتاز بھٹو کا شمار پیپلزپارٹی اور سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری کے سخت ترین مخالفین میں ہوتا ہے۔ عام انتخابات سے پہلے سردار ممتاز بھٹو نے سندھ نیشنل فرنٹ کو مسلم لیگ (ن) میں ضم کر دیا تھا مگر انہیں اور انکے ساتھیوں کو مسلم لیگ (ن) میں ان کی توقع کے مطابق ایڈجسٹ نہیں کیا گیا حتیٰ کہ ممتاز بھٹو کے صاحبزادے امیر بخش بھٹو کو وزیراعظم کا مشیر بنایا گیا لیکن ان کی خواہش پر پورٹ اور شپنگ کی وزارت انکے حوالے نہیں کی گئی۔ دوسری طرف سندھ حکومت کی انتقامی کارروائیوں کا نہ رکنے والا سلسلہ جاری رہا جس سے امکان پیدا ہو گیا ہے کہ ممتاز بھٹو سندھ نیشنل فرنٹ کو بحال کرکے مسلم لیگ (ن) سے اپنی راہیں جدا کرنے جا رہے ہیں۔