”ورنہ باقی ہے طاقتِ پرواز“

مِرزا غالب نے آخری مُغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو پیغام بھجوایا تھا کہ 

”سو پُشت سے ہے پیشہ¿ آبا سپہ گِری
کچھ شاعری ذریعہ¿ عِزّت نہیں مجھے“
حالانکہ مِرزا غالب کے لئے اُن کی شاعری ہی ذریعہ¿ عِزّت بنی۔ مِرزا غالب کو 1857ءکی جنگ آزادی کے دَوران انگریزی فوج کے سپاہیوں نے پکڑ لِیا۔ جب اُن سے پُوچھا گیا ”کون ہو تُم“ تو مِرزاصاحب نے کہا کہ! ”آدھا مسلمان!“ پھر پُوچھا گیا کہ ”وہ کیسے؟“ مِرزا غالب نے کہا کہ ”مَیں شراب پِیتا ہُوں، سُو¿ر کا گوشت نہیں کھاتا۔“ ایک مقام پر مِرزا غالب نے کہا کہ
” یہ مسائل تصوّف یہ تیرا بیان غالب
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا“
زندگی کے ہر موضُوع پر جذبوں کی شاعری کرنے والے مِرزا غالب نے اپنی کمزوریوں کا اعتراف کرتے ہُوئے کہا تھا کہ
”کعبہ کِس مُنہ سے جاﺅ گے غالب
شرم تُم کو! مگر نہیں آتی؟“
مِرزا غالب ”صاحبِ نصاب“ نہیں تھے ¾ ممکن ہے کسی صاحبِ حیثیت مسلمان یا اُن کے مدّاح شاعر بادشاہ نے انہیں حج پر بھجوانے کا ارادہ کِیا ہو؟ اگر مِرزا غالب قیامِ پاکستان کے بعد بھی زِندہ ہوتے تو کوئی نہ کوئی حکومتی سربراہ جب اپنے خصوصی طیارے میںاپنے پُورے قبیلے کو حج یا عُمرے پر لے جاتا تو یقیناً وہ مِرزا غالب کو بھی ساتھ لے جاتا۔ پھر مِرزا غالب سربراہِ مملکت اور سعودی بادشاہ کی شان میں دو قصِیدے لِکھ کر اتنا انعام ضرور پا لیتے کہ پُوری زِندگی کے لئے اُن کے ”ماکُوت و مشروبات“ کے مسائل حل ہو جاتے۔ انگریزی حکومت نے بہادر شاہ ظفر کو جلاوطن کر کے ”رنگون“ بھجوا دِیا تھا اور وہیں وہ دَفن ہیں۔ بہادر شاہ کے بُزرگ نورالدّ ِین جہانگیر (جِس نے انگریزوں کو ہِندوستان سے تجارت کی اجازت دی تھی) کا مزار لاہور میں ہے اور اُن کی ملکہ نُور جہاں کا بھی۔ ہِندوستان کے پہلے مسلمان بادشاہ قُطب اُلدّ ِین ایبک کا مزار بھی (انارکلی ) لاہور میں ہے۔ مِرزا غالب کے دَور سے پہلے کی شاعرہ ملکہ نُور جہاں کو شاید زمانے کی بے ثباتی اور بے وفائی کا پیشگی ادراک تھا جب اُس نے کہا کہ
”بَر مزارِ ما غریباں ¾ نَے چراغے ¾ نَے گُلے“
یعنی ”ہم غریبوں کے مزار پر کوئی بھی چراغ نہیں جلاتا اور نہ ہی کوئی پُھول چڑھاتا ہے۔“ کیا قیامت ہے کہ لاہور میں دِین کے حوالے سے خوبصورت ناموں (قطب الدّین ایبک اور نورالدّین جہانگیر) والے دو بادشاہ اور ایک بارُعب اور پُروقار ملکہ کے مزاروں پر کوئی بھی چراغ جلانے اور پُھول چڑھانے نہیں آتا۔ مُو¿رخین لِکھتے ہیں کہ ”روزانہ ایک بوتل شراب اور آدھ سیر بھُنے گوشت کے عوض حکمرانی کے سارے اختیارات ملکہ نُورجہاں کے سُپرد کر دیئے تھے۔“ گُلاب کا عِطر ملکہ نُور جہاں نے ایجاد کِیا تھا۔ اُس زمانے میں ہندوستان میں زیرِ زمین ”پٹرول“ ضرور ہوتا ہو گا لیکن اُس دَور کے لوگوں کو اُس کی ضرورت نہیں تھی۔ ملکہ نُورجہاں کے دَور سے پہلے پنجابی زبان کے نامور صُوفی شاعر حضرت سُلطان باہُو نے کہا تھا
”لکھّ ہزار کتاباں پڑھ کے، دانشمند سدِیوے ہُو
نام فقِیر ¾ تہِیندا با ہُو ¾ قبر جِنہاں دی جِیوے ہُو“
یعنی لاکھ ہزار کتابیں پڑھ کر دانشمند کہلانے والوں سے وہ درویش اُن سے کہیں بہتر ہیں جِن کی قبر زندہ ہے۔ لاہور میں حضرت داتا گنج بخشؒ اور دوسرے کئی اولیائے کرام کی قبریں زِندہ ہیں جن پر ہر روز ہزاروں لوگ فاتحہ پڑھنے ¾ پھُول چڑھانے اور اللہ تعالیٰ کے اِن برگزیدہ بندوں کی وساطت سے خالقِ حقیقی سے دُعائیں مانگنے کے لئے حاضری دیتے ہیں۔ اسی طرح مزارِ اقبال کی شکل میں عاشقِ رسُول حضرت علّامہ اقبال کی قبر بھی زِندہ ہے۔ مزارِ اقبال کے قریب ہی متحدہ پنجاب کے وزیرِاعظم سر سکندر حیات خان کی قبر ہے ¾ جِس پر اُن کے اپنے خاندان کے لوگ بھی حاضری دینا بھُول گئے ہیں۔ استاد حیدر علی آتش اگرچہ ہِندوستان میں انگریزی حکومت سے محبت میں فنا نہیں ہُوئے تھے لیکن انہوں نے کہا تھا کہ
”پیوندِ خاک ہو گئے ¾ اِک بُت کی راہ میں
پتھر ہماری قبر کا ¾ سنگِ نِشاں ہُوا“
مِرزا غالب کو مرنے کے بعد قبر یا مزار کی خواہش نہیں تھی ¾ جب انہوں نے کہا کہ
”ہُوئے مر کے ہم جو رُسوا ¾ ہُوئے کیوں نہ غَرقِ دریا؟
نہ کوئی جنازہ اُٹھتا ¾ نہ کہیں مزار ہوتا!“
اگر مزار غالب لاہور میں انتقال کرتے اور یہیں دفن ہوتے تو اُن کے مزار کی کتنی حُرمت ہوتی؟ علّامہ اقبال نے اپنی نظم ”مِرزا غالب“ کے پہلے شعر میں خُود کو ”آدھا مسلمان“ کہلانے والے عظیم شاعر کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہُوئے کہا تھا کہ
”فکرِ انساں سے ¾ تیری ہستی سے یہ روشن ہُوا!
ہے پر مُرغِ تخیّل کی ¾ رسائی تا کُجا؟“
ایک انگریز مصنّف نے لِکھا تھا کہ ”مَیں نے حضرت محمد کی عظمت کو خلیفہ عُمر بن الخطابؓ کی وساطت سے جانا پہچانا“ لاکھوں کروڑوں لوگ ”باب العِلم“ (حضرت علیؓ) کی وساطت سے ”مدِینة العِلم“ (پیغمبرِ اِنقلاب) تک پہنچے۔ قائدِاعظم سے پُوچھا گیا کہ ”آپ شیعہ ہیں یا سُنّی؟“ تو انہوں نے جواب دِیا کہ ”مَیں عام مسلمان ہُوں لیکن 21 رمضان المبارک کو یومِ شہادتِ علیؓ تو ہم سب مسلمان مِل کر مناتے ہیں۔“ علّامہ اقبال نے اپنے صاحبزادے کو وصِیّت کی تھی کہ ”اہلِ سُنّت کے مسلک پر چلو لیکن آئمہ اطہارؓ کی دِل و جان سے عِزّت کرو!“ علّامہ اقبال نے اپنی زوجہ¿ محترمہ (ڈاکٹر جاوید اقبال کی والدہ صاحبہ) کو اپنی خواہش کے مطابق لاہور میں ”حضرت رقیّہؓ بِنتِ علیؓ کے نام سے موسوم ”قبرستان بی بی پاک دامناں“ میں دَفن کرایا تھا۔
”پاکستان بنانے والوں کی اولاد“ کہلانے والوں کی جماعت ایم کیو ایم کے قائد اور لندن میں 25 سال سے مُقِیم برطانوی شہری جناب الطاف حسین جب بھی یہ کہتے ہیں کہ ”قائدِاعظم شیعہ تھے۔“ تو مجھ جیسے اُن لاکھوں لوگوں کو بہت دُکھ ہوتا ہے جو بیرونِ وطن کسی بھی خوشحال مُلک میں اچھی زِندگی گزارنے کے مواقع چھوڑ کر کے اپنے بزرگوں کی یادگار پاکستان میں ہزاروں دُکھوں تکلیفوں کے باوجود رہنا پسند کرتے ہیں۔ جب مَیں سال میں دو تین ماہ کے لئے برطانیہ ¾ امریکہ اور کینیڈا میں اپنے بیٹوں ¾ بیٹیوں اور اُن کے بچوں کے ساتھ چھٹیاں گزار کر وطن واپس آنے کا پروگرام بناتا ہُوں تو میرے کئی ”لہوری دوست“ مجھے خبردار کرتے ہیں کہ ”جِس مُلک میں بجلی اور گیس نہیں، قبضہ گروپ ¾ ٹارگٹ کِلرز اور مذہبی ¾ سیاسی اور معاشی دہشت گردوں کا راج ہے تو تم وہاں جا کر کیا کرو گے؟“ اور اب ”پٹرول کی قِلّت اور پُوری قوم کی ذِلّت“ کے بعد بھی مجھے ٹیلی فون پر اور بذریعہ ایس ایم ایس یہی طعنہ دِیا جا رہا ہے۔ مَیں اِس طرح کے دوستوں کو انہیں مِرزا غالب کا یہ شعر سُنا دیتا ہُوں
ہُوں گرفتار الفتِ صیّاد
ورنہ باقی ہے ¾ طاقتِ پرواز
مِرزا غالب ماہِ رمضان میں ایک دوپہر اپنے ایک دوست ”کالے خان“ کے مہمان تھے۔ ایک اور دوست نے پُوچھا کہ ”مِرزا صاحب! کیا ہو رہا ہے؟“ تو مِرزا صاحب نے جواب دِیا کہ ”پہلے میں گورے کی قید میں تھا اور اب کالے کی قید میں ہُوں۔“ تو معزز قارئین و قارِیات! مَیں غلام ہِندوستان میں غیر مُلکی گورے صیّاد کی اُلفت میں گرفتار تھا اور67 سال سے اپنی مرضی سے ”آزاد پاکستان“ میں رنگ بدلتے ہُوئے کسی نہ کسی صیّاد کی اُلفت میں
”ورنہ باقی ہے طاقتِ پرواز“

ای پیپر دی نیشن