لاہور (جاوید اقبال/ نیشن رپورٹ) محکمہ آبپاشی کی ایک حالیہ تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق بڑے زمینداروں کی جانب سے پانی چوری کرنے کی وجہ سے نہروں اور نالوں کے آخری سروںکی زرعی زمینوں والے کسان اپنے 60 سے 65 فیصد پانی سے محروم ہو گئے ہیں۔ پنجاب بھر میں پانی کی چوری ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق 2014ء میں ایک لاکھ 23 ہزار 415 افراد کو پانی چوری میں ملوث پایا گیا لیکن صرف 315 کو گرفتار اور 82 کو قید کی سزا ہوسکی۔ پنجاب میں پانی چوری کے کیسز 77 ہزار 970 تک پہنچ گئے جن میں سے 25 ہزار 877 کیسز میں نہروں پر پائپ لگا کر پانی چوری کیا گیا تھا۔ اس سال موہگہ توڑنے کے کل 58000 کیسز میں سے 28390 کیسز زرعی آبپاشی کے نظام سے رپورٹ ہوئے۔ پانی چوری محکمہ آبپاشی کے افسران کے علم میں بھی ہوتی ہے تاہم محکمہ اور کسان تنظیموں کی عدم دلچسپی کے باعث پانی چوری روکنے میں زبردست ناکامی کا سامنا ہے۔ پانی چوری کے کل 77 ہزار 970 کیسز میں سے 50 ہزار 955 پولیس کو رپورٹ ہوئے۔ پولیس نے ان میں سے 6 ہزار 518 کو رجسٹر کیا اور صرف 3 ہزار 805 مقدمات میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کی گئی اور صرف 315 افراد گرفتار ہوئے۔ اسی طرح پولیس نے پانی چوری میں ملوث ایک لاکھ 23 ہزار 415 میں سے صرف 4 ہزار 665 کو تفتیش میں شامل کیا اور صرف 1075 کیسز کا فیصلہ ہوسکا اور 82 افراد کو جیل ہوئی اور 34 لاکھ 14 ہزار 390 روپے جرمانہ وصول کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق محکمہ آبپاشی، اپیڈا اور کسان تنظیموں کے 200 سے زائد عہدیدار پانی چوری میں ملوث ہیں تاہم ان میں اکثریت کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جا سکی۔ پولیس پانی چوری کی وارداتوں پر کارروائی کرنے میں بری طرح ناکام ہو چکی ہے۔ کئی کسان نہروں کے موہگہ توڑنے، پانی چوری کیلئے پائپ لگانے کیلئے افسران کو ایک ہزار سے 2 ہزار روپے رشوت دیتے ہیں۔ محکمہ آبپاشی کے ایک سابق پی آئی ڈی سیکرٹری نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پانی چوری میں ملوث محکمہ کے کئی افسروں کو سیاستدانوں کی پشت پناہی حاصل ہے۔