عبدالقدوس فائق
عالمی منڈیوں میں پیٹرولیم کی قیمتوں میں 50فیصد سے زائد اورپاکستان میں38فیصد سے زائد کمی کے باوجود ملک میں عام طبقہ کومہنگائی میں ایک فیصد کمی کا بھی ریلیف نہیں مل سکا ہے اورپیٹرولیم میں کمی کا فائدہ صرف موٹرسائیکل والوں کو پیٹرول کی خریداری پر ہوا ہے۔ جبکہ کراچی اورسندھ میں ٹرانسپورٹرز‘ کے الیکٹرک سمیت کسی نے بھی نہ تو کرائے میں کوئی کمی کی ہے نہ ہی بجلی کی شرح میں کمی کی گئی ہے۔ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ اب گیس کی شرح میں بھی مزید اضافہ کی روح فسا اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ دورحاضر میں تمام درآمدات وبرآمدات کے ساتھ ساتھ ملک میں ضروری غذائی سامان‘ اجناس‘ صنعتی خام مال سمیت تمام سامان کی ترسیل کیلئے ٹرکس‘ٹرالرز‘ ریلویز‘ این ایل سی کوشاں ہیں پیٹرولیم کی قیمتو ں میں نمایاں کمی کے باوجود سوائے پاکستان ریلویز کے کسی نے بھی کرائے میں کمی نہیں کی ہے بلکہ پنجاب میں کپرودھند کو جواز بنا کر کراچی سے پنجاب ‘خیبر پی کے ‘کشمیر تک کے کرائے میں اضافہ کردیا ہے۔ اسی کے ساتھ کراچی آنے والی اجناس‘ سبزیوں ‘پھلوں کی ترسیل کرنے والوں نے ٹرکس کی قلت کو جواز بنا کر کرائے میں کمی تو کیا مزید اضافہ کردیا ہے۔ سبزیوں اورپھلوں کے کاشتکاروں اورمنڈی کے تاجروں کے مطابق سبزیوں میں ٹماٹر‘ لیموں‘ ہری مرچ‘ دھنیا ‘پودینہ ‘لوکی ‘کدو‘بھنڈی سمیت بیشتر چند دن تک تازہ رہتے ہیں پھرگل اورسڑ جاتے ہیں۔اس صورتحال میں وہ زائد کرایہ ادا کرنے پر مجبور ہیں اسی طرح کیلا‘ سیب ‘انگور‘ کینو اور دیگر پھل بھی جوکراچی میں فروخت اوربیرون ملک برآمد کئے جاتے ہیں۔ ایک ہفتہ سے زائد تروتازہ نہیں رہ سکتے اس سے پورا پورا فائدہ ٹرانسپورٹرز نے اٹھایا ہے۔ واضح رہے کہ پنجاب سے کراچی تک بڑے ٹرالرز کا کرایہ ا یک لاکھ 25ہزار روپے سے ڈیڑھ لاکھ روپے ہے جو30 دن سامان لے جاتا ہے۔ اس طرح کراچی پہنچ کر فی کلو کرایہ 4روپے سے زائد ہوتا ہے اوراگر کاشتکار نے 5روپے کلو آلو فروخت کیا ہو تو کراچی پہنچ کر یہ 10 روپے کلو ہوجاتا ہے پھر اس کے تھوک تاجر اورریٹیلرز کا منافع شامل کرکے یہ 5 روپے کلو والا آلو 18سے 20روپے کا ہو جاتا ہے۔پیٹرولیم میں اضافہ کے ساتھ ساتھ ٹرانسپورٹرز نے اپنے کرائے میں اضافہ کی شرح کے تناسب سے زائد اضافہ کیا تھا اور اب وہ اس میں ایک پیسہ کمی کے روادار بھی نہیں۔ دوسری طرف کراچی میں جب بھی ڈیزل اورپیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ٹرانسپورٹرز نے انتظامیہ اور حکومت سے ساز بازکرکے اس میں اضافہ کیا اور اب پیٹرولیم کی قیمتوں میں کمی کے بعد یہ کہہ کر کرائے میں کمی سے انکار کردیا کہ کراچی میں چلنے والی تمام بسیں‘ کوچز‘ منی بسیں اورآٹو رکشہ میں سی این جی استعمال ہوتا ہے اس پر پیٹرولیم کی قیمتوں کا اطلاق نہیں ہوتا۔ کراچی اور سندھ میں صوبائی حکومت بالکل لاچار نظر آتی ہے۔پیٹرولیم کی قیمتوں میں اضافہ کے بعد دنیا کی تمام شپنگ کمپنیوں نے بحری جہازوں اورسامان کے کرائے میں 12سے 15 فیصد کمی کی ہے۔ جس سے درآمدات وبرآمدات کی سی اینڈ ایف پرائس میں بھی کمی ہوئی ہے ساتھ ہی زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ اور پاکستانی روپے کی قدر میں اضافہ سے بھی درآمدی قیمتوں میں کمی ہوئی ہے۔ لیکن اب تک سوائے چند کے کسی کی قیمت میں کمی نہیں کی گئی ۔ عالمی منڈیوں میں پیٹرولیم کی قیمتوں میں اس کمی کے ساتھ ساتھ کوئلہ‘ پلاسٹک ‘ کیمیکلز‘ خوردنی تیل سمیت تمام کی قیمتوں میں بھی عالمی منڈیوں میں 30سے 35فیصد کمی ہوئی ہے خوردنی تیل جس میںپام آئل‘ سویا بین آئل‘ کنولا شامل ہیں کا بھاﺅ جو گزشتہ ماہ 850ڈالرفی ٹن تھا گر کر700ڈالر اور اب اس سے بھی نیچے جارہا ہے اورپام آئل اوردیگرخوردنی تیل کے بڑے تاجروں نے تھوک میں یہ خوردنی تیل 15دن قبل 100روپے کلو کردیا تھا مگر اب تک گھی‘ ویجیٹیبل آئل‘ ککنگ آئل تیار اورفروخت کرنے والی کمپنیوں نے اس کی قیمت 160روپے سے 200روپے کلو برقرار رکھی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ 10لیٹر کا ککنگ آئل 1980روپے سے 2060روپے میں فروخت کیاجارہا ہے جس میں 9.5کلو تیل ہوتا ہے اس طرح تھوک میں 110 روپے کلو فروخت ہونے والا یہ تیل 210روپے سے زائد قیمت پر فروخت ہورہا ہے ۔ یہی حال دیگر سامان کا بھی ہے مگر وفاقی اورصوبائی حکومتیں ان بااثر منافع خوروں کے سامنے بے بس نظر آتی ہیں البتہ کمشنر کراچی شعیب احمد صدیقی جنہوں نے پریس ریلیز تیارکرنے والا ایک شعبہ قائم کررکھا ہے روزانہ ذخیرہ اندوزوں اورمنافع خوروں کے خلاف کارروائی‘ جرمانوں کی خبریں شائع کراتے ہیں مگر ان اقدامات کے باوجود کراچی میں کوئی سبزی 100روپے کلو سے کم نہیں ہوپائے بلکہ مٹر جو چند دن قبل تک 80روپے کلو فروخت ہورہا تھا اب 160روپے کلو کردیا گیا ہے۔ بعض دانشوروں کا کہنا ہے کہ حکومت اور اس کے ارکان کی توجہ ملک کی معیشت اور ملک کے عام طبقہ کی طرف سرے سے نہیں آئے وہ نت نئے تماشے کرکے لوگوں کی توجہ سیاسی اکھاڑ پچھاڑ‘ دھرنوں‘ ریلیوں ‘ دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں کی جانب مبذول کرائی جاتی ہے اورعام طبقہ جومحدود آمدنی پانے والا ہے شدید مہنگائی کے عفریت تلے سسک رہا ہے۔ حکومت نے کم از کم اجرت 12500روپے مقرر کی ہے۔ ایک چھوٹا کنبہ اس رقم سے کس طرح زندہ رہ سکتا ہے کہ جب آٹا 40روپے کلو‘ گھی ‘ خوردنی تیل 160روپے سے 200روپے کلو‘ مرغی کا گوشت 350روپے کلو‘ گائے کا گوشت 500روپے کلو‘ بکرے کا گوشت 700روپے کلو‘ دودھ 100روپے لیٹر‘ شکر50روپے کلو‘ دالیں150 روپے کلو‘ سبزیاں 100روپے کلو دستیاب ہوں اور100یونٹ بجلی کا بل 1500روپے ادا کرنا پڑے۔ اس کے علاوہ ڈیوٹیز پر جانے کیلئے 100روپے یومیہ کرایہ بھی ادا کرنا ہوگا۔ اس مہنگائی سے ایک طرف تو سرکاری اداروں میں رشوت ستانی میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے تو دوسری طرف عام طبقہ شدید بدحالی میں مبتلا ہوگیا ہے۔ حکومت کی بے بسی کا اندازہ اس سے لگایاجاسکتا ہے کہ حکومت نے کم از کم پنشن 6ہزار روپے مقر رکی تھی اس سے قبل 4ہزار روپے مگر تین سال گزرنے کے بعد 4ہزارروپے اور6ماہ گزرنے کے باوجود 6ہزارروپے پنشن کی ادائیگی پر آج تک اولڈ ایج بینافٹس انسٹی ٹیوشن کو مجبور نہیں کیاجاسکا وزیرخزانہ اسحاق ڈار صاحب نے بڑی بے چارگی سے فرمایا کہ اس کا بورڈ آف ڈائریکٹر آزاد ہے ہم کچھ نہیں کرسکتے جبکہ گزشتہ 10سالوں میں اولڈ ایج سے ایک کھرب روپے سے زائد رقم غبن اوربدعنوانیوں کے ذریعہ اس سے زائد رقم ہڑپ کی جاسکی ہے پہلی بار جنرل پرویز مشرف کے دور میں جب عمر اصغر وزیر تھے 27ارب روپے کے غبن کا انکشاف ہوا۔ معاملہ دبا دیا گیا اور اتنی ہی رقم کا ایک اورغبن ہوا اور اس کے بعد اب سابق وزیر گوندل صاحب سمیت دیگر پر بھی 29سے 26 ارب روپے کے غبن کے الزامات میں اور اس کے دو ڈائریکٹرز جیل میں ہیں۔ یہ آزاد بورڈ آف ڈائریکٹرز پنشنرز کی رقم انہیں ادا کرنے کے بجائے غبن کے مرتکب ہوئے۔ بہرحال وفاقی وصوبائی حکومتیں عوام کو ریلیف دینے میں بری طرح ناکام ہیں۔