خاکسار نے ایک جاننے والے سے پوچھا کہ انہوں نے کانٹے والے کی نوکری سے معذرت کیوں کی؟ جواب ملا کہ وہ سمعی و بصری قوت میں کمزور تھے اور کانٹے بدلنے میں درکار تندہی اور مہارت نہیں رکھتے تھے اور ہمیشہ حادثے کا دھڑکا لگا رہتاتھا خصوصاً جب انکی تعیناتی ایک بڑے جنکشن ریلوے اسٹیشن پر ہوگئی اور کانٹے والا کہلوانے کیوجہ سے رشتہ نہ ملنا بھی ایک وجہ تھی- خاکسار کو بچپن میں کرکٹ کھیلتے دیہاتی اور بڑے جنکشن ریلوے اسٹیشن پر موجود کانٹے اور ریلوے ٹریک دیکھنے کا اتفاق ہوا- تاہم لاہور ریلوے اسٹیشن پر موجود حیرت انگیز کانٹوں کے بچھے جال نے سر چکرا کر رکھ دیا کہ کانٹے والا کیسے اتنے کانٹوں کو ترتیب دیتا ہوگا کہ ریل گاڑیاں صحیح سلامت پلیٹ فارم پر پہنچتی ہیںــــ-
جناب جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ کہتے ہیںکہ 1979ء کے انقلابِ ایران کے پس منظر میں 1980ء میں جب عراق نے امریکہ کی اشیربادپر ایران پر حملہ کر دیا تو ضیاء الحق صاحب نے ایک ہنگامی اجلاس طلب کیاجس میں وہ بھی شریک ہوئیـــ - شرکاء کی مجموعی آراء کے برعکس جب انہوں نے اپنی اس رائے کا اظہار کیا کہ عراق ایران جنگ جلد ختم ہونے کے بجائے طوالت اختیار کرے گی تو "سب حاضرین ہنس پڑے" تاہم انہوں نے وضاحت کی کہ ایران کے انقلابیوں کو شکست دینے کیلئے اُن سے زیادہ مضبوط نظریہ درکار ہے جو عراق کے پاس نہیں ہیـ لہذا پاکستان اپنی خارجہ حکمتِ عملی اِسی طوالت کے پیشِ نظر اختیار کریـ - یوں انہوں نے کانٹا بدلنے کی نشاندہی کی جس سے بقول اُنکے ضیاء الحق صاحب نے اتفاق کیا اور ہردو صورتوں کے مدِنظر پالیسی احکامات جاری کئے- بعد ازاں وزیر اعظم محمد خان جونیجو نے روسی فوجوں کے افغانستان سے انخلاء سے متعلق امریکی گنگا میں اشنان لیتے اور کانٹے کا لیور اپنے ہاتھ میں لیئے ٹریک بتدیلی کرنے کی کوشش کی تو اچھی بھلی نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھیـ- ایک اعلیٰ سطحی سلیکشن بورڈ کے ریٹائرڈ جنرل سربراہ صاحب نے پولیس تعیناتی کا تجربہ رکھنے والے ایک امیدوار سے دریافت کیا کہ پاکستان میں فرقہ وارانہ فسادات کی اصل وجہ کیا ہے؟ امیدوار نے جواب دیا کہ کچھ تنظیموں کی سرکاری سرپرستی! سچ آکھاں تے بھانبڑ بلدا ایـ-ـ ـ صاحب نے خفگی ظاہر کرتے ہوئے اختلاف کیا کہ سرکار اپنے ہی خلاف ایسا کیوں کرے گی؟جواب پیش ہوا کہ "انقلابِ ایران کے اثرات کو پاکستان میں روکنے کیلئے "اور دلیل پیش کی کہ 1982ء میں جب علامہ عارف الحسینی کی سرپرستی میں ایک بہت بڑے مجمع نے ایوانِ صدر کا زکواۃ و عشر آرڈیننس کیخلاف گھیرائو کر لیا تو سرکار نے سرحد کے اس پار خمینی انقلاب کی دھڑک پاکستان میں محسوس کی۔ فرقہ وارانہ فسادات کے اژدھا نے ہزاروں معصوم جانوں کو نگل لیا جسے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بعد ازاں کافی حد تک زیر کر لیا لیکن مرے سانپ کی رسی میں آج داعش جیسی تنظیموں نے جان ڈالنا شروع کردی اور انسانیت کو ڈسنا شروع کردیا- کانٹا اس بات کاتعین کرتا ہے کہ گاڑی کس ٹریک پر چلتے ہوئے کس پلیٹ فارم پر رُکے گی یا نان سٹاپ گاڑی ریلوے اسٹیشن پر کھڑی پسنجر ٹرین کو کراس کرتے آگے نکل جائے گیـ- یہاں نہایت احتیاط کی ضرورت ہے کہ کانٹا نہایت تندہی سے بدلا جائیـ - گوکہ آج کانٹے کمپیوٹرائزڈ بھی ہیں لیکن ماضی میںدستی کانٹوں پر پاکستان اور دنیا میں کئی خوفناک ٹرین حادثے ہوچکے ہیںـ-
اکثر دانشور مشورہ ضرور دیتے ہیںکہ 1991ء کی خلیجی جنگ ہو یا یمن کی سعودیہ پر حالیہ چڑھائی پاکستان کی جنگیں نہیں"- لہذا کانٹا احتیاط سے بدلا جائے لیکن ایسے نسخے اکثر قیادت پر گراں گزرتے ہیںـ - ایران عراق جنگ درحقیقت دو شیعہ ریاستوں کے درمیان جنگ تھی لہذا اُس وقت پاکستان سے مذہبی فرقوں کو جنگ میں شمولیت سے روکنے کے اقدامات سے کہیں زیادہ انقلاب ایران اور روسی جارحیت کے اثرات کو روکنا مقصود تھاـ- اپنے نظام کو بیرونی اثرات سے بچانے کا حق ہر ریاست محفوظ رکھتی ہے تاہم وہاں کانٹا بدلنے میں غفلت یوں ہوگئی کہ انقلاب کے اثرات کی ٹرین پاکستان کے اندرونی فرقہ وارانہ فسادات سے براہ راست آٹکرائی جس سے پاکستان کو شدید نقصان پہنچا اور آج فسادات کے اس پلیٹ فارم پر داعش جیسے مسافر جابجا نظر آتے ہیںـ-
ایک مقبول مقولہ ہے کہ خارجہ پالیسی میں نہ کوئی دوست ہوتا ہے اور نہ کوئی دشمن بلکہ مفاد اصل دوست ہوتا ہے ـ- پاکستان کو مسلم امہ کی فرنٹ لائن ریاست اور مضبوط عسکری و کیمیائی قوت کی بدولت اکثر آزمائشوں سے گزرنا پڑتا ہیـ- سیاسی اور خاندانی دوستیاں اکثر اداروں سے متصادم نظر آتی ہیںـ جو پرائی جنگ میں کودنے سے منع کرتے ہیں- قومی مفاد ہی خارجہ پالیسی کی اصل بنیاد ہے- یوں خارجہ پالیسی کا کانٹا کئی اوقات دو ہاتھوں میں نظر آتا ہے جو اپنی اپنی سوچ کے مطابق کانٹا بدلنے کی کھینچا تانی میں پھنسے نظر آتے ہیں- جس سے ملک کونفع و نقصان دونوں کا احتمال ہوتا ہے- اور پاکستان کا مفاد ایران ، سعودیہ دونوں کے ساتھ بہتر تعلقات کے ساتھ ساتھ اندرونی ضربِ عضب اور CPECجیسے بڑے منصبوں کی تکمیل میں ہے-
حالیہ ایران سعودی تنازع میں حالات یکسر مختلف اور نازک ہیں- آج گاڑی ایران، سعودیہ کے زیرِ سایہ 34ممالک کے اتحاد ، روس کے 4ملکی اتحاد اور امریکہ کے چھاتے تلے 60ملکی جنکشن اتحاد کیطرف یا پھرپاکستان کے اندرونی اتحاد سے بدلے گئے کانٹے سے گھوم پھر کر واپس اپنے اندرونی مفاد کے پلیٹ فارم پر جس سے نہ تو قوم کو کوئی نقصان ہوگا اور نہ ہی امت کو-