گمنام سپاہیوں کو سلام

Jan 19, 2016

شہر یار اصغر مرزا

چند ماہ پہلے میرے پوتے شایان علی اور ریحان علی جو پانچویں اور چھٹی جماعت کے طالب علم ہیں، انگلینڈ سے پاکستان آئے تو میرے ساتھ لاہور گھومنے پھرنے آتے جاتے رہے۔ ایک روز میں انہیں باغ جناح میں اپنی کلب ساتھ لے گیا۔ ان میں سے ایک کو واش جانے کی حاجت ہوئی جب واپس آیا تو مجھے کہنے لگا دادا کموڈ کے ساتھ لکھا تھا کہ کموڈ استعما ل کے بعد پانی والا بٹن ضرور دبائیں۔ یہ کیوں لکھا ہے کیا آپ کی کلب کے ایسے لوگ بھی ممبر ہیں جنہیں اس بات کا علم نہیں ہے میں نے اسے سمجھایا کہ تمام ممبران پڑھے لکھے لوگ ہیں مگر بعض اوقات جلدی میں ہوتے ہیں لو گ پانی گرانا بھول جاتے ہوں گے اس لئے انتظامیہ کو یہ لکھنا پڑا ہے، یار تم ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں کا نوٹس نہ لیا کرو تم نے اپنا کام کر لیا ہے تو تم یقیناً پانی گرا کر آئے ہو گے۔کلب سے نکل کر ہم باغ جناح کی سیر کو چل پڑے جنوری فروری میں موسم بڑا سہانا ہوتا ہے میرے دونوں پوتے ماشاء اللہ پیدل چلنے کے بے حد شوقین ہیں جب پہاڑی کے قریب پہنچے پانی پینے کیلئے واٹر کولر لگے ہوئے ہیں، یہاں انہوں نے دیکھا کہ سٹیل کے گلاس زنجیروں کے ساتھ باندھے ہوئے ہیں وہ بڑے حیران ہوئے اور مجھ پر سوالات کی بوچھاڑ شروع کر دی کہ گلاس کیوں زنجیروں کے ساتھ باندھے ہوئے ہیں، میں نے انہیں مطمئن کرنے کیلئے کہا کہ یار اگر گلاس کھلے پڑے ہوں تو بار بار نیچے گر سکتے ہیں اور ٹوٹ سکتے ہیں، اس لئے انہیں باندھنا ہی ضروری ہوتا ہے۔ مجھے سکون محسوس ہوا کہ وہ کچھ مطمئن ہو گئے ہیں۔اگلے روز انہیں سیر کے لئے باہر لے گیا، راستے میں مجھے اپنے بنک سے کچھ کام تھا وہ دونوں بھائی سے نکل کر میرے ساتھ بنک کے اندر آ گئے، پہلے انہوں نے مجھے پوچھا کہ دادا ہم ساتھ آ سکتے ہیں میں نے کہا ہاں ہاں ضرور یہ تو بڑی اچھی بات ہے۔ میں کیش کائونٹر سے رقم وصول کر رہا تھا کہ وہ دونوں بھائی بال پوائنٹ کو بندھا دیکھ کر میرے منتظر تھے۔ انہوں نے پھر سوال کیا کہ دادا بال پوائنٹ کیوں باندھ کر رکھا ہوا ہے، ان کے بھی ٹوٹنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ میں نے کھسیانی سی کھانسی کے بعد بتایا کہ یار پنسلوں کو اس لئے باندھا جاتا ہے کہ کوئی غلطی سے اتار کر نہ لے جائے اور پھر اسے واپس کرنے کیلئے نہ آنا پڑے۔ میں اندر سے پریشان تھا کہ میں انہیں کیا بتائوں کہ ہم سب اندر سے چور ہیں لوگ پنسلیں شعوری طور پر ساتھ لے جاتے ہیں، بنک کے ملازمین نے بتایا کہ پہلے بغیر زنجیروں کے پنسل رکھتے تھے اور روزانہ درجنوں کے حساب سے پنسل رکھتے تھے مگر جب سے زنجیر ڈالنا شروع کیا ہے ایک آدھ پنسل پھر بھی روزانہ زنجیر سے غائب ہو جاتی ہے، تاہم کافی کنٹرول کیا جا چکا ہے۔میں بچوں کو یہ ہرگز نہیں بتانا چاہتا تھا کہ ہم بحیثیت مجموعی چور ہیں۔ اسی روز مزید شرمندگی سے بچنے کیلئے میں انہیں کسی پبلک مقام یا کسی آفس میں جانے کی بجائے انہیں واہگہ بارڈر لے گیا جہاں روزانہ شام کے وقت پرچم اتارنے کی تقریب منعقد ہوتی ہے جسے دیکھ کر میرے دونوں پوتے بے حد خوش ہوئے اور ان کے اندر بھی وطن سے محبت کا جوشیلا پن پیدا کرنے کی کوشش میں کامیابی پر بے حد خوش ہوا، انہوں نے رینجرز کے پُرجوش خوبصورت جوانوں کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا۔ میں بے حد خوش تھا کہ آج صبح کے واقعات جو انہوں نے دیکھے اس کے اثرات زائل ہو چکے ہیں۔ ہم ایک زندہ دل قوم کی طرح گھر واپس آئے تو میں نے انہیں ایک واقعہ سنایا جو میں نے کچھ عرصہ قبل کہیں پڑھا تھا وہ واقعہ صرف شایان اور ریحان ہی نہیں بلکہ پاکستان کے بیس کروڑ کے عوام کو سننا چاہیے۔
بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح اپنی یادداشتوں میں لکھتے ہیں، قیام پاکستان کے بعد ایک دفعہ ٹرین میں سفر کر رہا تھا۔ ٹرین میں بھار ت سے آئے ہوئے چند لٹے پٹے مفلوک الحال مہاجرین بھی سفر کر رہے تھے اتنے میں ایک ٹکٹ چیکر ڈبے میں آیا اور مسافروں کے ٹکٹ چیک کرنے لگا اس نے ایک بڑھیا سے ٹکٹ مانگا، بڑھیا نے بڑی لجاحت سے ٹکٹ چیکر سے کہا، بیٹا ہم بھارت سے اپنا سب کچھ لٹا کر پاکستان آئے ہیں ہمارے پاس کھانے کو پیسے نہیں ٹکٹ کہاں سے خریدیں۔ ہمیں معاف کر دو۔ قائداعظم لکھتے ہیں، میں کچھ دور بیٹھا یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ وہ ٹکٹ چیکر مجھے شکل سے نہیں پہچانتا تھا میں دیکھنا چاہتا تھا کہ وہ ٹکٹ چیکر اس موقع پر کیا کرتا ہے۔ بڑھیا کی بات سن کر ٹکٹ چیکر کی آنکھوں میں آنسو آ گئے وہ بولا، اماں میں جانتا ہوں تم سچ کہہ رہی ہو مگر تم ہی بتائو ٹکٹ نہیں کٹے گا تو ریل کیسے چلے گی، ریل نہیں چلے گی تو پاکستان کیسے چلے گا، لہٰذا ٹکٹ تو ضرور کٹے گا مگر ٹکٹ کی رقم میں اپنی جیب سے ادا کرونگا۔ قائداعظم کے الفاظ ہیں میں تحریک پاکستان کے ایسے گمنام سپاہیوں کو سلام پیش کرتا ہوں۔

مزیدخبریں