ہمارے حکمرانوں کو بھی اب مودی سرکار کے سحر سے باہر آجانا چاہیے

Jan 19, 2016

اداریہ

پاکستان مخالف بھارتی پالیسیوں کا احیاءاور حریت کانفرنس کا اسلام آباد کشمیر کانفرنس کا بائیکاٹ

کنٹرول لائن کے دونوں جانب سے کشمیری قیادت کی باہمی مشاورت کیلئے اسلام آباد میں بلائی گئی گول میز کانفرنس حریت قیادت کے تحفظات کے پیش نظر ملتوی کر دی گئی ہے۔ یہ کانفرنس آزاد کشمیر حکومت کی جانب سے بلائی گئی تھی جس میں شرکت کیلئے مقبوضہ کشمیر کی حریت قیادت کے علاوہ بھارت نواز کشمیری رہنماﺅں کو بھی مدعو کیا گیا جس پر حریت قیادت نے سخت ناراضگی اور تحفظات کا اظہار کیا اور اس کانفرنس کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا۔ اس سلسلہ میں حریت کانفرنس کی شوریٰ کے اجلاس میں طے کیا گیا ہے کہ ایسی کسی بھی کشمیر کانفرنس میں حریت کانفرنس کی شرکت خارج ازمکان ہو گی جس میں بھارت نواز سیاست دانوں اور ممبران اسمبلی کو سرحد کے اس پار کشمیر کی سرزمین پر شرکت کیلئے مدعو کیا گیا ہو۔ حریت کانفرنس نے بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان وکاس سورپ کے کشمیر کے بارے میں دیئے گئے بیان کو بھی یکسر مسترد کردیا ہے اور باور کرایا ہے کہ کشمیر بھارت کا کوئی جائز حصہ نہیں بلکہ متنازعہ علاقہ ہے جس پر بھارت کا جبری اور ناجائز قبضہ ہے۔ حریت کانفرنس کی شوریٰ کے اجلاس میں باور کرایا گیا کہ جموں و کشمیر کا اصولی‘ پائیدار اور پرامن حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق صرف رائے شماری میں ہے‘ باقی کوئی بندر بانٹ یا جبری حل کشمیری عوام ہرگز قبول نہیں کرینگے۔
ہندو انتہاءپسندوں کی ترجمان بھارت کی مودی سرکار کی جانب سے گزشتہ ماہ دسمبر میں پاکستان کے ساتھ کشیدگی کے خاتمہ اور مذاکرات کی بحالی کیلئے جو پیش رفت کی گئی اس پر بھارت کے ساتھ کسی بھی قیمت پر دوستی کے خواہش مند حلقوں اور خود حکومت پاکستان کی جانب سے نریندر مودی کیلئے والہانہ تحسین کا سلسلہ شروع کر دیا گیا اور بی جے پی کے علاوہ نریندر مودی کا اپنا ماضی فراموش کرکے ان سے مذاکرات کے ذریعہ پاکستان بھارت دیرینہ تنازعات بشمول مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے توقعات وابستہ کرلی گئیں۔ اب یہ حقیقت کھل کر سامنے آرہی ہے کہ مودی سرکار نے پاکستان کیلئے فراخدلی والے جذبات پر مبنی یہ پالیسی ہندو انتہاءپسندی کے خاتمہ کیلئے بھارت پر پڑنے والے عالمی اور علاقائی دباﺅ کو وقتی طور پر ٹالنے کیلئے اختیار کی تھی مگر ہمارے خوش فہم حکمرانوں نے بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات کی بنیاد پر اپنے مقاصد کی تکمیل کے سازگار حالات کا اندازہ لگاکر بھارت سے وابستہ ماضی کے تلخ تجربات اور سودوزیاں کے مراحل کو بھی پیش نظر نہ رکھا اور کھلے بازوﺅں کے ساتھ بھارت کی جانب دوڑنا شروع کر دیا۔ نریندر مودی نے تو پوری مشاقی کے ساتھ اور سیاسی جگلری کے تحت ایک پرتاثیر ڈرامہ سٹیج کرکے فرانس میں عالمی ماحولیاتی کانفرنس کے موقع پر وزیراعظم پاکستان میاں نوازشریف کے ساتھ رازدانہ انداز میں زہرِخند کا مظاہرہ کرتے ہوئے ون آن ون ملاقات کرلی جسے عالمی اور مقامی میڈیا نے بہت بڑے بریک تھرو سے تعبیر کیا جبکہ بریک تھرو کا تاثر دینا ہی اس سٹیج کئے گئے ڈرامے کا بنیادی مقصد تھا جو میاں نوازشریف نے یہ کہہ کر پورا کردیا کہ مودی سے ملاقات میں باہمی رازداری کی باتیں ہوئی ہیں جو وہ افشا کرنا مناسب نہیں سمجھتے۔ گویا مودی کا تیر نشانے پر بیٹھا چنانچہ مزید ”بریک تھرو“ کیلئے دونوں ممالک کے قومی سلامتی کے مشیروں کی بنکاک میں ملاقات کا اہتمام ہو گیا جس کے بعد بھارتی وزیر خارجہ سشماسوراج بھی کھلتے مسکراتے چہرے کے ساتھ اسلام آباد آپہنچیں اور پھر یکایک کابل سے مودی کی اپنے سو رکنی وفد کے ساتھ لاہور آمد والا بڑا بریک تھرو ہو گیا جس کے دوران مودی کے جاتی امرا میں وزیراعظم نوازشریف کے ساتھ مزید راز و نیاز ہوئے اس طرح شکار کو پھندا ڈال کر اچک لینے کی مودی سرکار کی حکمت عملی کامیابی سے ہمکنار ہوگئی۔ بظاہر پاکستان بھارت سرحدی کشیدگی کافور ہو گئی اور دلوں سے دل ملانے والی باتیں منظرعام پر آنے لگیں۔ اسی خوشگوار فضا کی بھارت کو عالمی دباﺅ سے نکلنے کیلئے ضرورت تھی اور جب یہ ضرورت پوری ہو گئی تو بھارتی چالبازیوں پر مبنی کھیل کا پھر آغاز ہو گیا جس میں پہلی ہٹ پٹھانکوٹ حملوں کے ذریعے لگائی گئی اور پھر ان حملوں کے تناظر میں بھارتی میڈیا‘ حکام‘ دانشوروں اور مودی سرکار کے اہم کل پرزوں نے اپنی توپوں کا رخ پھر پاکستان کی جانب کرلیا۔ اسکے باوجود ہماری حکومتی سیاسی قیادتیں بھارتی جارحانہ عزائم کے احیاءکو دیکھ اور بھانپ کر بھی بھارت سے تعلقات کی بہتری سے متعلق اپنی خواہشات کے تابع آج بھی مودی سرکار کے آگے بھیگی بلی بنی نظر آتی ہیں اور پٹھانکوٹ حملوں کے حوالے سے پاکستان پر الزامات اور بدخوئیوں کی بوچھاڑ اور انتہاءپسند ہندوﺅں کے ہاتھوں بھارت میں پاکستانی باشندوں اور مسلم اقلیتوں کی تذلیل کے اعادہ کے باوجود ہمارے حکمران بہتر تعلقات پر مبنی اپنی خواہشات کی پٹاری ہی اٹھائے نظر آتے ہیں جبکہ بطور خاص سرحد پار کی کشمیری قیادت نے مودی سرکار کی اصلیت اور نریندر مودی کے مسلم دشمن ماضی کو پیش نظر رکھ کر پہلے دن سے ہی تعلقات کی بحالی کی بھارتی پیش رفت کو ایک نئے ٹریپ سے تعبیر کیا اور وزیراعظم پاکستان میاں نوازشریف کو بزرگ کشمیری لیڈر سید علی گیلانی سمیت تمام کشمیری قیادتوں نے باور کرایا کہ کشمیری عوام سے بالا بالا مسئلہ کشمیر کا کوئی حل انہیں قبول نہیں ہوگا‘ اسکے باوجود وزیراعظم نوازشریف نے بھارت کے ساتھ مثبت پیش رفت کی توقعات وابستہ کئے رکھیں تو کشمیری قیادتوں کا انکی پالیسیوں سے بدگمان ہونا فطری امر تھا جبکہ پٹھانکوٹ حملوں کے بعد اختیار کئے گئے بھارتی رویوں نے کشمیری قیادتوں کے خدشات بھی درست ثابت کردیئے۔
یہ طرفہ تماشا ہے کہ بھارت ممبئی حملوں جیسا ایکشن ری پلے کرتے ہوئے پٹھانکوٹ حملوں کے تناظر میں پاکستان بھارت خارجہ سیکرٹریوں کے مذاکرات کی میز بھی ماضی جیسی رعونت کے ساتھ الٹا چکا ہے مگر ہماری حکومتی قیادتیں مودی سرکار کیلئے بدستور ریشہ خطمی نظر آتی ہیں اور خارجہ سیکرٹریوں کے مذاکرات کی منسوخی کو بھی دوطرفہ رضامندی کا نام دے دیا گیا ہے۔ اسکے برعکس بھارت کی مودی سرکار اپنے اصل عزائم کے ساتھ پھر پاکستان اور مسلم مخالف رویوں کے کھلم کھلا اظہار اور دوطرفہ کشیدگی بڑھانے والے اقدامات اٹھانے سے ذرہ بھر نہیں ہچکچا رہی۔ ایک طرف بھارتی وزیر دفاع پاکستان کو ہذیانی کیفیت میں چیلنج کرتے ہیں تو دوسری جانب بھارتی انتہاءپسند ہندو تنظیموں شیوسینا‘ آر ایس ایس اور بجرنگ دل کی جانب سے پاکستان اور مسلم دشمنی کی انتہاءکے عملی مظاہرے شروع ہو جاتے ہیں۔ پھر گائے کا گوشت رکھنے کے الزامات کے تحت بھارتی مسلمانوں کی دوبارہ کمبختی آجاتی ہے اور چندی گڑھ میں سوامی دیوی دیال کالج آف انجینئرنگ کے کشمیری طلبہ پر انتہاءپسند ہندو غنڈوں کے حملوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے جبکہ اب پٹھانکوٹ کو جواز بنا کر مودی سرکار نے کنٹرول لائن پر پاکستانی سرحد کے ساتھ لیزر وال لگانے کا سلسلہ بھی شروع کر دیا ہے۔ اگر مودی سرکار فی الواقع پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات کی بحالی کی خواہاں ہوتی تو پٹھانکوٹ حملوں کے بعد پاکستان مخالف جذبات کو ابھارنے اور پاکستان دشمنی پر مبنی اقدامات اٹھانے کے معاملہ میں کچھ تو احتیاط سے کام لیتی جبکہ مودی سرکار اب عملاً پاکستان دشمنی کی تیار شدہ پچ پر ہی واپس آن کھڑی ہوئی ہے۔ اس تناظر میں کنٹرول لائن کی دوسری جانب والی حریت قیادت نے بھارت شناسی میں اپنے زیرک ہونے کی گواہی اسلام آباد کی کشمیر کانفرنس کا اس بنیاد پر بائیکاٹ کرکے دی ہے کہ اس میں بھارت نواز کشمیری قیادت کو کیوں مدعو کیا گیا ہے۔ حریت قیادت کو یقیناً یہ خدشہ بھی ہوگا کہ اس فورم پر بھارت کی مرضی والا کشمیر فارمولا پیش کیا جا سکتا ہے جو مقبوضہ کشمیر کو بھارتی اٹوٹ انگ اور آزاد کشمیر کو پاکستانی مقبوضہ قرار دینے والے بھارتی پراپیگنڈے کے باعث پہلے ہی عیاں ہوچکا ہے۔
اس تناظر میں اب مناسب یہی ہے کہ ہمارے خوش فہم حکمران بھی مودی سرکار کے سحر سے باہر نکل آئیں‘ اسکے ہر صورت ڈنک مارنے والی اصل فطرت کو پیش نظر رکھ کر ملک کی آزادی‘ خودمختاری اور آبرومندی کی پاسداری کریں اور ہرصورت مذاکرات کی خواہش کرکے اپنے اس موذی دشمن پر اپنی کسی کمزوری کا تاثر پیدا نہ ہونے دیں۔ اب بہتر ہوگا کہ دونوں جانب کی کشمیری قیادت کو اعتماد میں لے کر بھارت کے ساتھ تعلقات کے معاملہ میں پالیسی مرتب کی جائے۔ ہمیں اپنی آزادی اور خودمختاری کو بہرصورت دشمن کی سازشوں سے بچانا ہے۔

مزیدخبریں