”4 سال میں حسین نواز نے والد محترم کو 52 کروڑ بطور تحفہ دیئے“

اسلام آباد (صلاح الدین خان/ نمائندہ نوائے وقت) پانامہ پیپرز لیکس کیس میں وزیراعظم کے وکیل کی جانب سے سماعت میں مسلسل تین دن تک صادق امین سے متعلق آئین کے آرٹیکل62,63کے تحت دلائل دینے کا سحر ٹوٹ گےا، ملکی غیرملکی مقدمات کے فیصلوں کی مثالیں ختم ہونے پر بنچ کے ججز کی جانب سے سوالات کی بوچھاڑ کر دی گئی۔ انہوں نے چند جوابات دینے کے علاوہ زےادہ تر خاموشی اختےار کرلی، جبکہ آخر کار جج کو بھی کہنا پڑا کہ نااہل قرار دینے کے نکات سے نکلیں دیگر کئی سوالات کے جوابات دینا ابھی باقی ہیں ، ججز نے استفسار کےا کہ رقم کی منی ٹریل، اصل سرمایہ کا ماخذ کےا ہے ، سنا تھا کہ والد ہی بیٹوں کو تحفے دیتا ہے جبکہ چار سال کے دوران حسین نواز نے 52کروڑ روپے کے تحفے دیئے وہ بھی صرف رقم کی صورت میں کہیں یہ کالے دھن کو سفید کرنے کی کوشش تو نہیں؟ ججز کے ان سوالات اوروزیراعظم کے وکیل کی جانب سے مناسب جوابات نہ دینے پر کمرہ عدالت میں موجود پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان ودیگر کے چہروں پر خوشی اور رونق صاف نظر آرہی تھی جبکہ ن لیگ کے رہنما پریشان اور آپس میں سرگوشےاں کرتے نظر آئے، بعض مواقع پر دونوں سےاسی پارٹیوں کے افراد فرط جذبات سے سیٹوں سے کھڑے ہوجاتے تھے ، سےاسی جماعتوں کے افراد سپریم کورٹ کی راہ داریوں میں مخالف پارٹیوں کے افراد سے بڑے اچھے طریقے سے ملاقات کرتے مگر ٹی وی کیمروں کے سامنے اپنے بےانات میں ایک دوسرے کے خلاف پراپیگنڈے میں سخت الفاظ استعمال کرتے، یوں وہ نادانی میں اپنی اپنی سےاسی پارٹیوں کی بدنامی کا باعث بھی بن رہے ہیں ۔ ججز کے ریمارکس کبھی ایک پارٹی کے حق ےا خلاف کبھی دوسری پارٹی کے حق میں ہوتے ہیں جس سے سےاسی جماعتیں خود ساختہ یہ تاثر قائم کرلیتی ہیں کہ کیس کا فیصلہ ان کے حق میں ہوگا وہ کیس جیت چکی ہیں ، جبکہ ایسا سوچنا حقائق کے برعکس ہے ، ججز خود بھی متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ یہ ضروری نہیں کہ وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں کیس کا فیصلہ بھی اس کے مطابق ہو۔

ای پیپر دی نیشن