سیاست کے مرد آہن‘ باکردار‘بااصول ‘راست گو‘ نڈر‘ بے خوف‘ بے باک فولادی صفات کی حامل عظیم شخصیت ائیر مارشل اصغر خان پر کچھ لکھنے کے لئے الفاظ نہیں مل رہے۔ قوم کے اس عظیم سپوت کی پونی صدی پر محیط عسکری و سیاسی ندگی بے شمار چیلنجوں‘ کارناموں اور واقعات سے بھری پڑی ہے۔ انہوں نے وہ چیلنج زدہ ا ور مشکل کام کئے جوکوئی دوسرا نہ کرسکتا تھا نہ کرنے کاسوچ سکتا تھا۔ ائیرمارشل محمد اصغر خان نے اپنی بے پناہ خداداد صلاحیتوں کی بدولت ایک مختصر عرصے میں محدود وسائل و تعداد سے پاک فضائیہ کی تعمیر و تربیت کی کہ 65ء کی پاک بھارت جنگ میں ابتدائی دنوں میں ہی برتری حاصل کرکے دشمن پر اپنی دھاک بٹھا دی۔ پاک فضائیہ کی مضبوط بنیاد سے ہی آج بھی پاک فضائیہ کاشماردنیا کی بہترین اور طاقتور فضائیہ میں ہوتاہے۔ ائیر مارشل محمد اصغر خان فضائیہ کے ہی شاہین نہیں تھے‘ ان کی ساری سیاسی زندگی بھی شاہین کی طرح گزری اورانہوں نے غلاظت زدہ کرگسی جہاں سے اپنا جہاں اور اپنی اڑان اونچی رکھی۔ ائیر مارشل محمداصغرخان ایک با اصول شخص تھے۔ انہوں نے اپنی عسکری و سیاسی زندگی میں کبھی اور کسی قیمت پر سمجھوتا نہیں کیا۔ 1942ء میں جب وہ انڈین فضائیہ میں اسکواڈرن لیڈرتھے ‘ ان کو ان کے انگریز کمانڈر کی طرف سے سندھ کے ایک صحرا سے گزرنے والے حروں کے ایک قافلے پر بمباری کا حکم ملا۔ ائیر مارشل محمد اصغرخان طیارہ لے کر گئے تو دیکھا ا نگریزوں کے خلاف آزادی کی جنگ لڑنے والا قافلہ نہتا ہے اور طیارے کو اپنے اوپر آتے دیکھ کراپنی جانیں بچانے کے لئے صحرا میں ادھر ادھر بھاگ رہے ہیں۔ یہ دیکھ کرائیر مارشل قافلے کو نشانہ بنائے بغیر واپسی آگئے اور اپنے کمانڈر کو بتایا کہ قافلہ نہتا تھا‘ قانون جس کا میں نے حلف اٹھایا ہے نہتے لوگوں پربمباری کی اجازت نہیں دیتا۔ آپ کا حکم غیر قانونی تھا جو میں نہیں مانتا۔ اس پاداش میں ائیرمارشل کو گرائونڈ کردیا گیا بعد میں ائیر مارشل کا موقف صحیح ثابت ہونے پر بحال کردیا گیا۔ یہی بات ائیر مارشل محمد اصغر خان نے 1977ء میں فوج کو لکھے جانے والے مشہور زمانہ خط میں لکھی تھی‘ جس کا چرچا تو بہت کیا گیا لیکن یہ نہیں دیکھا کہ خط میں لکھا کیا ہے۔ ائیر مارشل محمد اصغر خان نے آپریشن جبر الٹر پر اعتماد میں نہ لینے پر 44 سال کی عمر اور عہدے کے عروج پر اس وقت کے صدر فیلڈ مارشل ایوب خان سے اختلاف کرتے ہوئے پاک فضائیہ کی سربراہی سے استعفیٰ دے دیا لیکن استعفیٰ کے چند ہفتے بعد 65ء کی جنگ شروع ہونے پر اپنی عسکری خدمات حکومت کو پیش کردیں اور جنگ میں اپنا بھر پور کردار اورقومی و ملی فریضہ انجام دیا۔ وہ 65ء میں صدر ایوب کو راتوں رات پاکستان کے دوست ممالک کے سربراہوں سے ملاقات کیلئے لے گئے۔ ائیر مارشل محمد اصغر خان کی سیاسی زندگی نصف صدی سے زائد عرصے پر محیط ہے جس میں انہوں نے آمریت کے خلاف اور جمہوریت کے فروغ کیلئے طویل جدوجہد کی۔ عہد ایوبی میں جب ذوالفقار علی بھٹو کو پابند سلاسل کردیا گیا تو انہوں نے بھٹو صاحب کی رہائی کیلئے بھر پور کامیاب تحریک چلائی۔ 1977ء میں ملکی تاریخ کے سب سے طویل اور بڑے جلوس کی قیادت کی جوکراچی ائیر پورٹ سے برنس روڈ تک نکالا اورپھیلا ہوا تھا۔ فوجی حکمران ضیاء الحق نے جب وعدے کے مطابق 90 روز میں الیکشن کرانے کے اپنے وعد سے مکر گئے تو ائیر مارشل محمد اصغرخان نے بحالی جمہوریت کی تحریک (ایم آر ڈی) میں بھر پور کردارادا کیا۔ جنرل ضیاء الحق نے انہیں ان کے گھر ایبٹ آباد میں نظر بند کردیا جس کا عرصہ چھ سال پرمحیط تھا۔ ائیر مارشل محمداصغر خان کی پروقار شخصیت اورقائدانہ صلاحیتوں کی بدولت تحریک استقلال ایک بڑی اور فعال جماعت بنی اور اس سیاسی کارکنان کی ایک بہت بڑی کھیپ تیار ہو کر دوسری سیاسی جماعتوں میں جاتی رہی کیونکہ وہ ائیر ماشرل محمد اصغر خان کی طویل اور انتھک سیاسی جدوجہد میں تھک ہار گئے۔ میاں محمود علی قصوری‘ اکبر خان بگٹی‘ نوازشریف‘ خورشید قصوری‘ اعتزاز احسن‘ شیخ رشید‘ فخرامام‘ بیگم عابدہ حسین‘ سید ظفر علی شاہ‘ منظور وٹو‘ نثار کھوڑو و دیگر کئی سیاست کے بڑے نام تحریک استقلال کے باسی رہے اور موقع در موقع ائیر مارشل کے قافلے سے ’’اقتدار روڈ‘‘ کی جانب مڑتے رہے‘ خود ناچیز بھی تین دہائیوں سے زائد عرصہ ائیر مارشل کی سیاسی قیادت کا شریک سفر رہا۔ ائیر مارشل محمد اصغر خان سیاست اور امورمملکت میں عسکری مداخلت کے سخت خلاف رہے۔(انہوں نے بذریعہ سپریم کورٹ طاقتور ملکی ایجنسی کا سیاسی ونگ ضم کرایا) وہ پڑوسی ممالک سے اچھے تعلقات اور ایک آزاد و خود مختار خارجہ پالیسی کے حامی رہے۔ وہ پاکستان کو عالمی طاقتوں کا خیمہ بردار بنانے کے بھی سخت خلاف تھے۔ ائیر مارشل کی نجی زندگی بھی اصولوں پر مبنی و صاف ستھری نہایت سادہ اور قابل رشک تھی وہ ہمیشہ اپنی بات کا آغاز اور اختتام اپنی دل آویز مسکراہٹ سے کرتے تھے۔ وہ ریا کاری‘ دکھاوا اور منافقت سے سخت نفرت کرتے تھے۔ وہ سچے اور چھپے عاشق رسولﷺ تھے‘ وہ اپنے نام کے ساتھ محمد (محمد اصغرخان) ضرور لکھتے اور لکھواتے تھے۔ وہ پاکستان میں اسلام کی صحیح روح کے مطابق نظام چاہتے تھے۔ خلیفہ راشدین کے نظام کا نفاذ تحریک استقلال کے منشورکا حصہ بھی رہا۔ اب جبکہ وہ اپنی طویل بھر پور زندگی گزار کردنیا سے رخصت ہوگئے ہیں اوروں کی طرح میری بھی اللہ تعالیٰ سے انہیں اپنے جواررحمت رکھنے کی دعا ہے۔ امین ثم امین۔
آخر میں ائیر مارشل محمد اصغر خان وزیراعظم پاکستان کی جانب سے بھرپور سرکاری اعزاز کے ساتھ تدفین کو حکومت کا قابل قدر آشنا اقدام سمجھتا ہوں اور وزیراعظم جناب خاقان عباسی اور حکومت پاکستان سے درخواست کرتا ہوں کہ ائیر مارشل محمد اصغرخان کے آبائی شہر ایبٹ آباد ( جو انگریز کے نام پر ہے) کو ائیرمارشل محمد اصغرخان کے نام سے منسوب کیا جائے یہ حکومت اور عوام کی جانب سے ائیرمارشل محمد اصغرخان کی قومی و ملی خدمات کا اعتراف ہوگا۔