اسلام آباد (نمائندہ خصوصی+ اے پی پی) وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ آئین میں ٹیکنو کریٹس کی حکومت کی کوئی گنجائش نہیں، ملک میں حکومت وہی کرے گا جسے پاکستان کے عوام منتخب کریں گے، انشاء اللہ سینٹ کے انتخابات بھی اپنے مقررہ وقت پر ہوں گے، حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرے گی، تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی باتیں روز بدلتی رہتی ہیں، ان کی کوئی مستقل بات نہیں ہے، آصف علی زرداری اور عمران خان انتخابات کا انتظار کر لیں اور پاکستانی عوام کو فیصلے کا موقع دیں، پاکستان نے امریکہ کے تحفظات کا واضح جواب دے دیا، ہم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ اپنے وسائل سے لڑی، بھارت مقبوضہ کشمیر میں نہتے کشمیریوں پر مظالم کی انتہا کر رہا ہے ، بھارتی وزیراعظم سے سائیڈ لائن ملاقات کا کوئی امکان نہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ آئین میں یہ گنجائش موجود ہے کہ کسی بھی صوبے کا وزیراعلیٰ جب چاہے اسمبلیاں توڑ سکتا ہے لیکن جو بھی وزیراعلیٰ اس وقت ایسا کرے گا مستقبل میں اس کی سیاست مجھے تو نظر نہیں آتی کیونکہ لوگ ایسے کسی بھی عمل کو قبول نہیں کرتے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے تو آصف علی زرداری کی سیاست کو طاہرالقادری کے ساتھ جانے کا کوئی فائدہ نظر نہیں آتا لیکن اس کے بارے میں بہتر تو وہ خود ہی بتا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں نے یہ بات کبھی نہیں کہی کہ سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف کے حوالے سے عدالت کے فیصلے کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیں گے بلکہ میں نے تو یہ کہا ہے کہ عدالت کے اس فیصلے کو نہ تو پاکستان کے عوام نے قبول کیا ہے اور نہ ہی تاریخ نے اسے قبول کیا ہے، یہ ایک واضح حقیقت ہے اور میری رائے بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نہ پہلے وزارت عظمیٰ کا امیدوار تھا اور نہ ہی اب ہوں، پارٹی نے مجھے یہ جو ذمہ داری دی ہے میں اپنا فرض ادا کر رہا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ محمد نواز شریف کی مجیب الرحمان سے متعلق بات کو کوئی اور رنگ دینا مناسب نہیں، انہوں نے کہا کہ محمد نواز شریف اور ضیاء الحق کا براہ راست تعلق 3 ماہ کے عرصے سے بھی کم تھا اس لیے ان کے مارشل لاء سے جنم لینے کا تاثر درست نہیں۔ انہوں نے کہا کہ جنرل باجوہ ایک پروفیشنل آدمی ہیں جن کی بطور آرمی چیف سلیکشن بھی محمد نواز شریف ہی نے کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ جنرل باجوہ جمہوریت کے لیے پرعزم ہیں اور چاہتے ہیں کہ انتخابات وقت پر ہوں۔ امریکہ کے تحفظات کا پاکستان نے واضح جواب دے دیا ہے، انہوں نے کہا کہ طاہرالقادری کو میرا تو مشورہ ہے کہ وہ اپنے ملک چلے جائیں کیونکہ ان کی تو پاکستانی شہریت بھی مشکوک ہے، کینیڈا کا ایک شہری تو آئینی طور پر یہاں الیکشن بھی نہیں لڑ سکتا تو پھر وہ یہاں سیاست کیسے کر سکتا ہے لیکن ان سے زیادہ حیرانی مجھے پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان پیپلز پارٹی کے ان دو اشخاص پر ہے جو طاہرالقادری کے پیچھے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔ علاوہ ازیں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی صدارت میں زیر تشکیل کامرس پالیسی فریم ورک کا جائزہ لیا گیا۔ وزیراعظم کو مجوزہ پالیسی کے خدوخال کے بارے میں بریفنگ دی گئی۔ نئی پالیسی کا مقصد تجارت میں سہولت پیدا کرنا ہے۔ اجلاس میں وفاقی وزیر تجارت پرویز ملک‘ انوشہ رحمان‘ رانا محمد افضل اور اعلیٰ سرکاری حکام نے شرکت کی۔ وزیراعظم نے کہا کہ ٹیکسیشن کے ایشوز اور دوسرے مسائل کے حل کے لئے نجی شعبے سے بھی مشاورت لی جائے۔ مزید براں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی آئندہ ہفتے ٹیکس ایمنسٹی سکیم اور دیگر امور کے بارے میں حتمی فیصلے کریں گے۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ ایف بی آر‘ وزارت خزانہ‘ وزارت تجارت اور دوسرے معاشی ادارے مختلف پہلوؤں پر کام کر رہے ہیں۔ ان تمام کے بارے میں آئندہ ہفتے اجلاسوں کا انعقاد شروع ہو جائے گا جس کے بعد حتمی فیصلے ہوں گے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بیرون ملک اثاثوں اور اکاؤنٹس کے لئے ایمنسٹی سکیم دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے اس کے خدوخال تیار ہیں تاہم کس ٹیکس ریٹ پر اثاثے ڈکلیئر کرنے کی اجازت دی جائے گی اس پر حتمی فیصلہ ہو گا۔ یہ تجویز ہے کہ تین‘ پانچ فیصد تک ریٹ رکھا جائے‘ ای فنڈ کی ادائیگی کے میکنزم کو بھی حتمی شکل دی جائے گی جبکہ ’’ان پٹ کاسٹ‘‘ میں کمی کے طریقوں کے بارے میں بھی فیصلہ ہو گا۔ ان تمام کا مقصد برآمدات کو بڑھانا ہے۔