سب سے پہلے میں محترم جسٹس آصف سعید کھوسہ کو چیف جسٹس آف پاکستان کا عہدہ سنبھالنے پر دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ میری رائے میں وہ اس عہدے پر فائز ہونے کا بجاطور پر استحقاق رکھتے ہیںکیونکہ وہ نہ صرف اعلیٰ تعلیمی پس منظرکے ساتھ ساتھ قانونی و آئینی امورکا وسیع تجربہ رکھتے ہیں،بلکہ اس کے ساتھ ساتھ آپ نے اپنے کیرئیر میں بڑی بہادری اور جرأتمندی سے کئی ایسے اہم فیصلے تحریر کیے ہیں جن سے ان کی ذات اور سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہوسکتے تھے۔میرے خیال میں درحقیقت جرأت اور بہادری بشمول دیگر اوصاف اچھے جج کا طرئہ امتیاز ہوتے ہیں ۔اگرچہ میں عملی وکالت سے وابستہ نہیں ہوں لیکن پھر بھی ان خیالات کا مکمل طور پر پرجوش حامی ہوں جو اس خط کے ذریعے میں فاضل چیف جسٹس تک پہنچا رہا ہوں۔ ۔
میرے یہ خیالات نئے نہیں ہیں۔میں اپنے انہی خیالات کا اظہار 2016ء میں شائع ہونے والی اپنی کتاب
"Neither a Hawk Nor a Dove" میں (صفحہ نمبر 453 سے 475تک) بھی کرچکا ہوں۔ یہ کتاب بنیادی طور پرخارجہ پالیسی سے متعلق ہے لیکن پاکستان آرمی کے حوالے سے لکھے گئے اس کتاب کے ایک باب میں میں نے صدر جنرل پرویزمشرف کی طرف سے سابق چیف جسٹس آف پاکستان جناب افتخار محمد چودھری کے خلاف بھیجے جانے والے ریفرنس کا تذکرہ بھی کیا ہے۔ میں نے اس کتاب میں کہا ہے کہ سپریم کورٹ کو بہرحال اپنا آئینی کردار تو ضرور ادا کرنا چاہیے لیکن سرگرم عدالتی مداخلت کو جواز فراہم کرکے اپنے آپ کو سسٹم کے حوالے سے Platonic Guardian سمجھنے سے گریز کرنا چاہیے۔ میں اس وقت چند ایسے حالیہ عدالتی اقدامات اور بیانات کی وجہ سے آپ کو یہ کھلا خط تحریر کرنے پر مجبور ہوا ہوں جو نہ صرف میرے لیے بلکہ عدلیہ کے کئی دوسرے خیرخواہوں کے لیے بھی تشویش کا باعث بنے ہیں۔
میرا تعلق ایک ایسے خاندان سے ہے جس کی تین نسلیں وکالت کے شعبے سے وابستہ رہی ہیں ۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ میرے مرحوم والد میاں محمود علی قصوری ایک بڑے پائے کے قانون دان تھے ۔انہیں پاکستان میں آئین و قانون کی علامت تصور کیا جاتا تھا۔ان کا شمار پاکستان میں انسانی حقوق کے بڑے اور ممتاز ترین رہنمائوں میں ہوتا تھا ۔بعض حلقوں میں میاں محمود علی قصوری کو قانون کے مختلف شعبوں میں ان کی مہارت اور تجربے کی وجہ سے ’’مسٹرلا‘‘(Mr.Law) کے نام سے بھی یاد کیا جاتا تھا۔میرے والد کی خواہش تھی کہ مجھے عملی وکالت سے منسلک ہونا چاہیے۔ اسی لیے گورنمنٹ کالج لاہور سے گریجوایشن کرنے کے بعد انہوں نے مجھے قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے کیمبرج یونیورسٹی بھجوایا۔ جہاں سے میں نے قانون کی ڈگری حاصل کی، بعد میں میں نے لندن سے بار ایٹ لاء کیا۔اگرچہ میں عملی وکالت سے منسلک تو نہیں ہوسکا لیکن ان دنوں عدلیہ یا وکالت کے پیشے سے وابستہ ہونے کو اس قدر اچھا اور باوقار سمجھا جاتا تھا کہ میں پاکستا ن کے ایک ممتاز قانون دان کا بیٹا ہونے پر فخر کیا کرتا تھا۔
میں اپنے آپ کو اپنے والد کی تربیت اور اس تربیت کے اثرات سے اس وقت بھی الگ نہیں کرسکا جب میں پاکستان کے وزیرخارجہ کے طور پر فرائض سرانجام دے رہا تھا۔ ان دنوں جب صدر پرویزمشرف نے ایمرجنسی نافذ کی تو میں نے اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے بارے میں شدید تحفظات رکھنے کے باوجود اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا خط صدر پرویزمشرف کو بھیج دیا تھا۔ میں اپنے والد کی زبانی پاکستان کے کئی ایسے عظیم ججوں کی خوبیوں اور صفات کے تذکرے سنا کرتا تھا جن کا تعلق میرے والد سے بھی رہا تھا۔ ان عظیم ججوں کی فہرست میں پاکستان کے ممتاز ترین جج حضرات سر عبدالرشید ، اے آر کارنیلس، ایم آر کیانی اور معروف برطانوی جج لارڈ ڈپ لاک(Lord Diplock) سمیت کئی دیگر جج حضرات بھی شامل تھے۔مجھے اپنے والد کے گھر پر خود بھی ذاتی طور پر اس وقت کے مشہورو معروف وکلاء بشمول جناب حسین شہید سہروردی، جناب منظور قادر ، جناب اے کے بروہی اور جناب ایم انور سے ذاتی طور پر ملنے کا شرف حاصل ہوا اور میں دنیائے قانون کی ان ممتازہستیوں سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔
میں نے حال ہی میں کچھ ایسے عدالتی واقعات دیکھے ہیں جو ناصرف میرے لیے بلکہ عدلیہ کے دیگر خیرخواہوں کے لیے بھی تشویش کا باعث بنے ہیں۔
جوڈیشل ایکٹوازم
میرے نزدیک انتظامیہ کی زیادتیوں کو روکنے کے لیے آئینی حدود کے اندر رہتے ہوئے عدالتی نظرثانی کا عمل یقینی طور پر انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق ہے لیکن حکومت کے دیگر شعبوں /اداروں کی قیمت پر عدالتی طاقت میں اضافے کے لیے اس کا مسلسل اور بے لگام استعمال نامناسب ہے۔
ہماری طرح کے ملکوں میں جہاں آئین تحریری طور پر موجود ہے وہاں ججوں کا یہ اختیار ہے کہ وہ قوانین کی تشریح و تعبیر ایک مستحکم اور قابلِ گمان انداز میں کریں۔ لیکن یہ بات غیرمناسب ہوگی کہ وہ عملاً قانون سازی کرنے لگ جائیں یاایسا لگنے لگے کہ عدلیہ اپنے متعین اختیارات سے تجاوزکررہی ہے۔ میں آج بھی اپنے ان الفاظ اور خیالات پر قائم ہوں جن کا اظہار میں نے اپنی کتاب (صفحہ نمبر 453 سے 475تک) میں کیا ۔ میں نے اپنی کتاب میں جہاں ان جینوئن کیسز کا ذکر کیا ہے جہاں انتظامیہ اور مقننہ عوامی اہمیت کے نہایت اہم معاملات میں انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے میں ناکام رہے ہوں ۔ ایسے معاملات میں سپریم کورٹ کو آخری چارئہ کار کے طور پر منصفانہ طور پر آئین کے آرٹیکل 184/(3) کے تحت اپنے صوابدیدی اختیارات کو استعمال کرنا چاہیے۔سپریم کورٹ کی طرف سے صوابدیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے ازخود نوٹس کا بے دھڑک اور مسلسل استعمال نہ صرف آئین کے آرٹیکل 10 اے (Due Process) کی رو سے مطابقت نہیں رکھتا ہے بلکہ یہ عمل ماتحت عدالتوں کے دائرئہ کار کو محدود کردینے کا باعث بھی بنتا ہے۔ اس عمل کی وجہ سے کئی مرتبہ متاثرہ افراد اپیل کے حق سے بھی محروم رہ جاتے ہیں۔
سپریم کورٹ کی طرف سے کسی مسئلے پر صوابدیدی اختیارات کو استعمال کرکے ازخود نوٹس لینے سے اگرچہ وقتی طور پر تو اس مسئلے کی اہمیت اجاگر ہوجاتی ہے لیکن یہ عمل مسائل کو مستقل طور پر حل کرنے میں مددگار ثابت نہیں ہوتا بلکہ بعض اوقات تو اس سے صورتحال اور بھی خراب ہوجاتی ہے کیونکہ جج صاحبان گورننس کے مختلف شعبوں کے ماہر نہیں ہوتے اور ان کی مہارت قانون کے شعبے میں ہوتی ہے ۔
میں بڑے دکھ کے ساتھ چند حقائق بیان کرنا چاہتا ہوں ۔ اگرچہ مجھے اس بات کا علم ہے کہ سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار قانونی قابلیت ، دیانت داری اور نیک نیتی کے حوالے سے اچھی شہرت رکھتے ہیں لیکن یہ بات اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ مناسب غوروخوض کے بغیر اورمعاملات کے تمام پہلوئوں کا باریک بینی سے جائزہ لیے بغیر، اگر جلدبازی میں فیصلے کیے جائیں تو ان کے نتائج تباہ کن بھی ہوسکتے ہیں۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے انسان کا سقراط یا بقراط ہونا ضروری نہیں کہ جو فیصلے جلدبازی میں اور بغیر مناسب سوچ بچار کے اضطراری کیفیت میں کیے جائیں وہ نہ تو زیادہ یاد رکھے جائیں گے اور نہ ہی زیادہ فعال ثابت ہوں گے۔
سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے دور میں سینئر سرکاری افسران کی طرف سے مسلسل ایسی شکایات ملتی رہی تھیں کہ ان افسران کے کاموں میں چیف جسٹس کی طرف سے مداخلت کی جارہی تھی یہی نہیں بلکہ ان کے دور میں جسٹس افتخار چودھری افسران کو طلب کرتے ، ان کو گھنٹوں انتظار کرواتے اور یوں ان کا وقت ضائع ہوتا۔جسٹس افتخار چودھری بڑے سرکاری افسران کو ان کے ماتحتوں کے سامنے تضحیک کا نشانہ بناتے جس سے ان افسران کی عزت نفس مجروح ہوتی۔ (جاری)