سرفراز احمد ‘کامران اکمل کیساتھ ناانصافی‘محمد عامر ریٹائرمنٹ کا فیصلہ واپس لے

ہاں نا کے بعد بالآخر بنگلہ دیشی کرکٹ بورڈ نے تین قسطوں میں اپنی کرکٹ ٹیم کو دورہ پاکستان کی اجازت دیدی۔ یہ رویہ انتہائی افسوسناک ہے۔ مجھے علم ہے انہیں قائل کرنے کیلئے ڈائریکٹر انٹرنیشنل کرکٹ ذاکر خان نے کتنی محنت کی ‘ اس کا کریڈٹ اسے ملنا چاہیے۔ ذاکر خان اپنے کام میں بہت ماہر ہے۔ وہ جب بھی اس عہدے پر کام کرتا ہے جونیئر کرکٹ کو بہت فائدہ ہوتا ہے۔ سری لنکن ٹیم کے بعد بنگلہ دیش کو پاکستان لانا اس کی انتظامی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ سری لنکن ٹیم کے دورے کے وقت ہی انہوں نے کہا تھا کہ ہم بنگلہ دیش کو لانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اگر ذاکر اتنا کام کرتا ہے تو پھر پچیس تیس لاکھ والے امپورٹڈ چیف ایگزیکٹو آفیسر وسیم خان کی کارکردگی کیا ہے۔ بنگلہ دیش نے پاکستان آنا تھا اور یہ تین ہفتوں کے لیے آسٹریلیا کے دورے پر چلے گئے۔ آسٹریلیا انگلینڈ جنوبی افریقہ جیسی ٹیمیں اگر ایسی حرکت کرتیں تو شاید قابل قبول ہوتا کیونکہ وہ ٹیمیں پاکستان کے حالات کو اتنا نہیں جانتی جتنا بنگلہ دیش جانتا ہے کیونکہ ہم پیدائشی طور پر پہلے اکھٹے ہی تھے اور بنگلہ دیش کوآئی سی سی کا رکن بنانے میں پاکستان کا بڑا کردار اورہاتھ ہے اور مجھے یاد ہے کہ جب بنگلہ دیش نے پاکستانی کر کٹ ٹیم کو دورہ بنگلہ دیش کی دعوت دی تو وہاں کے حالات بہت خراب تھے تو عمران خان نے ایک مضبوط ٹیم بنا کر وہاں کا دورہ کیا چونکہ میں ٹیم کا منیجرتھا مجھے یاد ہے تمام رات پاکستانی ٹیم کیخلاف ہوٹل جہاں ٹیم ٹھہری ہوئی تھی جلوس آتے گالیاں نکالتے اور قاتلو واپس جاو کے نعرے لگاتے مگرہم نے ایک غیر سرکاری دورہ مکمل کیا کیونکہ یہ دورہ بنگلہ دیشی کرکٹ کو دنیا میں روشن کرنا تھا یہی نہیں بلکہ دو سال بعد پھر عمران خان کی قیادت میں پھر پاکستان کی فل ٹیم بنگلہ دیش گئی اور وہاں بھارت پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان ایک سیریز کھیلی گئی جو بعد میں بنگلہ دیش میں کرکٹ کی بنیاد بنی اور بنگلہ دیش دنیائے کرکٹ میں روشناس ہوا اورآئی سی سی کا ممبر بنا ۔آج پاکستانی کرکٹ پر بْرا وقت آیا ہے جس میں پاکستان کا کوئی قصور نہیں تو بنگلہ دیشی کرکٹ بورڈ کے نخرے سمجھ سے بالاتر ہیں۔ خیر پاکستانی کرکٹ پر یہ وقت بھی گزر جائے گا اور ان نخروں کی یادیں باقی رہ جائیں گی ۔پاکستان کرکٹ بورڈ نے بنگلہ دیش کیخلاف ٹیم کا اعلان کر دیا ہے جس میں کافی کھچڑی پکائی گئی ہے آسٹریلیا میں ناکام ہونے والے سات کھلاڑی نکال دیئے گئے اور انکی جگہ حفیظ اور شعیب ملک کو شامل کیا گیا ہے جن کا کیریئر خاتمے کے قریب ہے۔ اگر T20 ورلڈ کپ جو اسی سال آسٹریلیا میںہو رہا ہے اسکی وجہ سے ان دونوں کو شامل کیا گیا ہے تو انکی آسٹریلیا میں کارکردگی کو ضرور دیکھنا چاہیے تھا ۔رضوان کو سرفرا ز پر فوقیت دی گئی ہے جو T20 کرکٹ میں زیادتی ہے۔ اگر شعیب ملک اور حفیظ کی جگہ ٹیم میں بن سکتی ہے تو سرفراز ان سے سو درجے اہل ہے۔ سلیکٹرز کو کسی بھی T20 میچ کی ٹیم کا اعلان کرنے سے پہلے ورلڈ کپ کو سامنے رکھنا ہوگا۔ پھر کامران اکمل کو بھی اس فارمیٹ کے لیے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ٹونٹی ٹونٹی میں کامران اکمل اور سرفراز احمد کی موجودگی میں محمد رضوان کی ٹیم میں جگہ نہیں بنتی۔ محمد عامر کو ٹیم سے باہر کیا گیا جو اچھا فیصلہ نہیں کہا جا سکتا۔ T20 میں محمد عامر ترپ کا پتہ کہا جا سکتا ہے مگر ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائیر منٹ کا فیصلہ عامر کا گندہ ترین فیصلہ ہے اس نے ملک ملک جا کر پیسے کمانے کیلئے چھوٹی چھوٹی کرکٹ کو اوڑھنا بچھونا بنانے کی کوشش کی ہے اس لحاظ سے بورڑ کا فیصلہ درست کہا جا سکتا ہے کیونکہ ایک کرکٹر کو بنانے کیلئے کروڑوں روپے بورڈ کو خرچ کرنے پڑتے ہیں اور جب وہ ملک کو چھوڑ کر ذاتی مہمات پر نکل پڑے تو اسے نکالنا ایک مثال بن جانا چاہیے تاکہ آنے والے کھلاڑیوں کے لئے نصیحت بن جائے۔ میری عامر کو نصیحت ہے کہ اپنا ریٹائر منٹ کا فیصلہ واپس لے ابھی وہ جوان ہے اور مزید پاکستان کی ہر فارمیٹ میں کھیل سکتا ہے۔ وہ لوگ کتنے خوش نصیب ہیں جن کو ملک کیلئے چنا جاتا ہے اور وہ لوگ کتنے بدنصیب ہوتے ہیں جو ملک کی خدمت عزت چھوڑ کر دولت اکھٹی کرنے کے پیچھے دوڑ لگا دیں۔ اْمید ہے عامر میری نصیحت پر عمل کرتے ہوئے ریٹائرمنٹ کا فیصلہ واپس لیکر اپنی دھرتی کیلئے کھیلے گا جس مٹی میں ابدی نیند سونا ہے۔ اب عامر کا نام پاکستان سے ہے جب پاکستان نہیں کھلائے گا تو ایک دو سال میں عامر کو گھر والوں یا قریبی دوستوں کے علاوہ کوئی نہیں جانتا ہو گا اور اسی باولنگ پر جو ناز ہے مٹی میں مل جائے گا۔ عقل وہ جو وقت پر کام آے۔ بنگلہ دیش کے مقابلے میں پاکستان کی ٹیم مضبوط ہے اور ہوم گراؤنڈ و کراؤڈ کا ایڈوانٹیج بھی ہے ٹونٹی ٹونٹی میچوں کی سیریز پاکستان جیت جائے گا۔

ای پیپر دی نیشن