’’ انسان خودکشی اس لئے کرتا ہے جب وہ بیزار جاتا ہے اور اسکو تخلیق کی سمجھ آ جاتی ہے ۔ جب ایک سمجھدار بندہ اپنی جان لیتا ہے تو اس کی موت پہ رویا نہیں کرتے اسکے فیصلے کا احترام کرتے ہیں ‘‘ یہ آ خری پیغام جناب ایس ایس پی میاں ابرار حسین نیکو کارہ کا ہے جو انہوں نے اپنی موت سے قبل اپنے چاہنے والوں کے لئے چھوڑا اور کہا جاتا ہے اس کے بعد انہوں نے اپنے سرکاری پستول سے اپنے دفتر میں اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا ۔ ان کی خودکشی کی وجہ مبینہ طور پر گھریلو حالات بتایا جا رہا ہے ۔ کیسی بے بسی اور عجیب سی تشنگی ہے ایس ایس پی صاحب کے آخری الفاظ میں ، جو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے کہ ایک پڑھا لکھا باشعور شخص کیسے اتنا انتہائی قدم اٹھا سکتا ہے ۔ جانے کون سے کمزور لمحے کی گرفت میں آ کر وہ یہ فیصلہ کر بیٹھے۔ کیا وہ ڈیپریشن کا شکار ہو چکے تھے یا کائنات کے اسرار و رموز کو سمجھنے میں اس حد تک آگے جا چکے تھے کہ ان کو اپنی زندگی بے معنی لگنے لگی تھی یا ان کے گھریلو حالات اتنے مخدوش ہو چکے تھے کہ انہوں نے موت کی بانہوں میں پناہ لے لی یا ان کے آس پاس ایسے لوگ تھے جن کی وجہ سے وہ نا مساعد حالات کا شکار ہو کے زندگی کی بازی ہار گئے ۔ یہ اور اس طرح کے کئی اور سوال یونہی ذہنوں میں گردش کرتے رہیں گے کیونکہ اس عمل کے پیچھے چھپے حقائق شاید کہیں ان کے ساتھ ہی دفن ہو چکے ہیں ۔
اس شخص کی کس قدر بد نصیبی ہے کہ اگر دنیا اس کے لئے قابل قبول نہیں تھی تو آخرت کے لئے بھی جہنم کا سودا کر بیٹھا ۔ ان کا یہ کہنا کہ انسان خود کشی اس لئے کرتا ہے جب وہ بیزار ہوجاتا ہے ، تو میرا خیال ہے انسان کو زندگی میں ایسے راستے منتخب نہیں کرنے چاہیں جو اس سے زندہ رہنے کا جواز ہی چھین لیں اور یقین جانئیے اگر واقعی ابرار صاحب کو تخلیق کی سمجھ آ جاتی تو وہ ہرگز بھی یہ انتہائی قدم نہ اٹھاتے کیونکہ انسان اس دنیا میں نہ اپنی مرضی سے آتا ہے اور نہ ہی اس کو اپنی مرضی سے جانے کا اختیار ہے۔ یہ زندگی خدا تعالی کی دی ہوئی امانت ہے اور ہمیں ہر حال میں اس امانت کو سنبھال کے رکھنا ہے ۔ قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے ۔ یقینا اﷲ نہیں پسند کرتا کسی خیانت کرنے والے ناشکرے کو ( سورہ الج آیت نمبر ۳۸ ) اور آخر میں انہوں نے جو یہ کہا کہ جب ایک سمجھدار بندہ اپنی جان لیتا ہے تو اس کی موت پہ رویا نہیں کرتے اسکے فیصلے کا احترام کرتے ہیں شاید واقعی یہ درست بات ہے کہ سمجھ دار بندے کی اس طرح کی موت پہ رونے کی بجائے اس کی عقل پہ ماتم کرنا چایئے کہ اللہ کا اختیار ایک انسان اپنے ہا تھ میں کیسے لے سکتا ہے ۔ انسان کی یہ محض خام خیالی ہے کہ زندگی کے مسائل سے گھبرا کے موت کی پناہ حاصل کر لینے سے اسے غموں ، اذیتوں سے پناہ مل جائے گی اگر کوئی شخص ایسا سوچتا ہے تو وہ ایمان کے سب سے کمزور درجے میں شامل ہے ۔ زندگی تو اسے عذاب لگتی ہی ہے اور موت کے بعد کی زندگی کو وہ خود عذاب بنانا چاہتا ہے کیا وہ دنیاوی و ابدی زندگی میں صرف گھاٹے کا سودا چاہتا ہے۔
میاں ابرار حسین جن کا تعلق چنیوٹ کے ایک نواحی علاقے ہرسہ شیخ سے تھا ۔ وہ تا حال روات ٹریننگ سکول میںپرنسپل کی حیثیت سے تعینات تھے ان کے بارے میں ان کے علاقے کے لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ بہت زندہ دل اور ہنس مکھ انسان تھے ، اپنے علاقے کے لئے انہوں نے بہت فلاحی کام کیے ، گاٗوں کے لوگوں کی ہر دم مدد کرنے کو تیار رہتے تھے ۔ جن لوگوں کا ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا تھا ان کے مطابق انکے رویے کو دیکھتے ہوئے قطعی محسوس نہیں ہوتا تھا کہ یہ شخص اتنا انتہائی قدم بھی اٹھا سکتا ہے ۔
ان کے اہل علاقہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے علاقے کی ترقی کے لئے بہت کام کیا وہ اپنے علاقے کے پہلے شخص تھے جنہوں نے سی ایس ایس کا امتحان پاس کر کے پولیس سروس جوائن کی ، وہ سی ٹی او فیصل آباد ، ڈی پی او خوشاب بھی تعینات رہے ۔ ان کے ایک بھائی حال ہی میں چینیوٹ بار ایسو سی ایشن کے جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے ۔
ابرار حسین صاحب کی موت پہ دل بہت مغموم ہے کاش ہم سب مل کے اس قابل شخص کو بچا سکتے جنہوں نے اپنی محنت اور لگن سے اپنے علاقے کے لوگوں کو تو بہتر زندگی گزارنے کا شعور دیا اور ان کی حالت بدلنے کے لئے دن رات مصروف رہے لیکن خود کو کمزور لمحوں کی گرفت سے نا بچا سکے اور اپنے ہاتھوں اپنی زندگی کا خاتمہ کر بیٹھے ۔