تجربات کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ ان سے استفادہ کرنا چاہیئے۔ شہنشاہ اکبر نے اپنے آخری ایام میں کچھ ایسی غلطیاںکر دیں جو ہماری جیسی بے سمت قوم کے لئے مثال بن گئیں، اسی لئے شائد بادشاہ نے مرنے کے بعد اپنے ہاتھ اور سر کو کفن سے باہر رکھنے کی وصیت کی۔شہنشاہ اکبر نے کہا تھا کہ’’ اقتدار ایک ایسی چیز ہے جس میں اپنے سگے بہن،بھائی کا بھی اعتبار نہ کرو‘‘
ملک میں موجودہ سیاسی صورتحال میں ہیجان ہے ۔حکمرانوں پر مخالف جماعتوں کی گرفت مضبوط ہوتی دکھائی دے رہی ہے حال ہی میں ہونے والی سیاسی سرگرمیوں سے’’سیاسی مافیا‘‘نے اپنی طاقت کا عندیہ دیا ہے۔
سات دہائیوں کے ستائے ہوئے عوام نے ہر بار کی طرح اس بار بھی حکومت سے بہت سی توقعات وابستہ کر لیں، نتیجہ یہ نکلا کہ’’ آیا،کھایا اور کھسکے‘‘ کی حالت پیش آ گئی ہے۔جنرل ضیاء الحق کے گیارہ سالہ مارشل لائی دور کے بھیانک انجام کے بعد عوام کو جمہوریت پسندی کے دعوے اور نعرے سنائے گئے وہ نہ جانے کس بحر میں غرق ہو گئے ۔انقلاب کی بھی آوازیں بلند کرنے والے نشاندہی کرنے کی بجائے تماشائی بنے محض تالیاں بجا رہے ہیں۔حالات پر ماتم کرنے کو دل کرتا ہے۔نام نہادجمہوری جماعتوں اور عوام میں استحصالی سوچ کی ’’دیوارِبرلن‘‘ کھڑی ہے۔ سیاسی جماعتیں دلفریب نعروں نعروں سے عوام کو بے وقوف بنانے کا سلسلہ ابھی بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک میں دو بڑی طاقتوں عدلیہ اور فوج سے سب نے امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں۔جمہوریت کی پائیداری کے لیے عسکری اور سویلین قیادت کوایک پیج پر دیکھنے کی خواہش بہت سی قوتوں کا مشن ہے مگر یہ اتحاد و یکجہتی براہ راست عوام کے حقوق (Civil Rights)کے لیے مفید ہوتو شائد دونوں طاقتوں کا مقام اور مرتبہ بلند ہے۔یہی تو المیہ کہ مفادات کی سیاست،تعاون اور ضرورت کے سامنے عوامی حقوق بہت پیچھے رہ گئے آج تک کسی بھی منتخب حکومت نے عوامی مفادِ عامہ کے لیے کیے گئے اقدامات بھی ذاتی خواہشات سے مشروط رکھے۔اس کا سب سے بڑ ا فائدہ بیوروکریسی کو ہوا جس نے اداروں کے درمیان نام نہاد Bridgeبناکر اپنی طاقت کا لوہا منوایا۔بڑا حسین اتفاق ہے کہ جب عوامی حقوق کی بات کی جائے تو بیورو کریسی کا سارا ملبہ ما تحتوں پر آ گرتا ہے جبکہ ماتحت ہر غلطی کا ذمہ دار افسرانِ بالا کو ہی ٹھہراتے ہیں ۔۹۰کی ء دہائی میں جب بار بار جمہوری حکومتیں گِرانے ،بنانے کا سلسلہ چل رہا تھا ، تب بھی بیورو کریسی بے لگام سرکاری مشینری اور انتظامی امور میں بیگاڑ پیدا کررہی تھی۔یہی سیاسی منظر نامہ بدلنے کا آغاز ہوتا ہے۔
اب حکومتی اتحادیوں نے موجودہ سیٹ اپ میں تبدیلی کااشارہ دے دیا ہے۔حکومت نے بھی ایک تانگے میں کتنے ہی گھوڑے جوت لئے تھے،اب خاک تو اُڑنی تھی،اور روندے بھی جانے تھا۔اگرچہ حکومت مخالف محاذ ابھی مضبوطی نہیں پکڑ رہا لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ حکومت کے پاس مطالبات پورے کرنے کا کونسا ’’چراغ‘‘ ہے کہ و ہ اتحادیوں کو دوبارہ ناراضگی تک رام کر لے گی۔دوسری جانب وزیراعظم کرپشن کو ختم کرنے،بے روزگاروں کو روزگار دینے ،تعلیم کو عام کرنے،صحت کی سہولتوں میں اضافے اور معیشت کا پہیہ چالو رکھنے کا متعدد بارمحض اعلان کر چکے ہیں۔
ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ جس راستے سے حکومت منتخب ہوئی ہے ،تمام سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلتی،اہم قومی ایشوز پر رائے، اصلاح اور رضامندی ہی جمہوری روایت ہے۔مگر ایسا نہ ہواگزشتہ تین ہفتوں میں حکومت مخالف جماعتوں نے حکومت کے مخالف مکمل فضا بنانے میں کسی حد تک کامیابی حاصل کر لی ہے،جبکہ چند’’ بجھکڑ ‘‘وزیراعظم کو غلط راہوں اور خوفناک کھنڈروں کا راستہ دکھا رہے ہیں۔سیاسی بصیرت اور مدبرانہ سوچ درکار ہے ۔اہم قومی مسائل میں سوچ کا لمحہ عوام کے حقوق پرہی ساکت ہو جاتا ہے۔اس کے لئے ہر طرف سے آوازیں بلند ہو رہی ہیں ۔وزیراعظم کے گرد گھیرا انہیں حملوں سے محفوط تو کر رہا ہے مگر وہ باہر کے حالات سے واقف نہیں ہیں۔مہنگائی سے لے کر اسرائیل امریکہ گٹھ جوڑ تک حکومت کی پالیسیوں پر کسی حلقے کی جانب سے مکمل اطمینان کا اظہار بھی نہیں ہو سکا۔ایک سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود حکومتی اصلاحات اور اقادامت کو منفی نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔اگر مسائل حل نہ ہوں تو وسائل بھی ہاتھ سے جانے لگتے ہیں۔
عوام بہت باشعور ہو چکے ہیں ان تک برتن کھنکھنے اور گھنٹیان بجنے کی آوازیں پہلے ہی پہنچ جاتی ہیں۔اگر حالات اچھے نہیں رہے ،تو گھنٹیاں
بجیں گی،اوراق پلٹیں گے،تاریخ اپنے آپ کو دہرائے گی او عوام ایک بار پھر ‘‘خصوصی نشریات‘‘ دیکھے گی۔