2020ء کا سورج طلوع ہوتے ہی وفاق میں 4اتحادی جماعتوں کی ’’بیساکھیوں‘‘ پر قائم تحریک انصاف کی حکومت ’’لرزاں بر اندام ‘‘ ہو گئی‘ چاروں اتحادی جماعتوں کو اچانک وہ’’ مطالبات اور وعدے ‘‘ یاد آگئے جو تحریک انصاف نے حکومت قائم کرتے ہوئے ان جماعتوں سے کئے تھے۔ ’’اتحادیوں ‘‘ کی جانب سے آنکھیں دکھانے سے حکومت پریشان ہو گئی ۔ سیاسی حلقوں میں یہ سوال زیر بحث ہے کہ’’ کیا واقعی ان ہائوس تبدیلی کی کوئی سنجیدہ موو ہے۔‘‘
حال ہی میں پاکستانی سیاست کے ایک اہم’’ کھلاڑی ‘‘ نے ملاقات میں انکشاف کیا ہے کہ 4اتحادی جماعتوں کی طرف سے اچانک ’’ناراضی اور گلے شکوے‘‘ بلاوجہ نہیں یہ ایک ’’نپی تلی‘‘تحریک (calculated move) کا حصہ ہے ۔ اچانک دھماکہ ہو سکتا ہے ۔بظاہر حکومت یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ اسے کسی طرف سے کوئی خطرہ نہیں ہے لیکن جس طرح وزیر اعظم عمران خان نے اتحادی جماعتوں کے ’’’شورشرابہ ‘‘ اور ’’آہ و زاری‘‘ کا فوری نوٹس لیا ہے اور حکومتی ٹیم کو فوری طور پر اتحادی جماعتوں سے رابطے قائم کرنے اور ان کی شکایات کا ازالہ کرنے کی ہدایت کی ہے اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کسی نہ کسی سطح پر کچھ نہ کچھ ہو رہا ہے جسے ناکام بنانے کیلئے پوری پارٹی میدان میں اتر آئی ہے۔ اتحادی جماعت ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ خالد مقبول صدیقی نے’’ آئو دیکھا نہ تائو ‘‘ اپنے ’’مطالبات‘‘ منوانے کیلئے وفاقی کابینہ چھوڑنے کا اعلان کر کے حکومتی حلقوں میں کھلبلی مچا دی ۔ اگلے ہی روز حکومتی کمیٹی ان کو منانے کیلئے کراچی پہنچ گئی لیکن وہ نہ صرف مانے ہی نہیں بلکہ اگلے روز اپنا استعفیٰ وزیراعظم کو بھجوادیا اور ان سے فوری طور پراستعفیٰ قبول کرنے کی درخواست کر دی۔ دلچسپ امر یہ ہے تمام اتحادی جماعتیں ایک سانس میں حکومت سے ’’گلے شکوے‘‘ کررہی ہیں تو دوسرے سانس میں حکومت کے ساتھ کھڑا ہونے کا اعلان بھی کررہی ہیں۔ سب سے زیادہ بلند آواز میں مسلم لیگ (ق) کی ہے جس نے حکومت کے خلاف ’’دفترشکایات‘‘ کھول رکھا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ق) کے صدر چوہدری شجاعت حسین اور پنجاب اسمبلی کے سپیکر چوہدری پرویز الٰہی نے تو حکومتی کمیٹی سے ملاقات کرنے کی زحمت گوارہ بھی نہیں کی بلکہ حکومتی کمیٹی کو کہلا بھیجا کہ وفاقی وزیر ہائوسنگ و ورکس طارق بشیر چیمہ اور قومی اسمبلی کے ارکان مونس الٰہی ، چوہدری سالک حسین اور حسین الہی سے ملاقات کرے تو بہتر ہے جن کو حکومت سے شکایات ہیں جس کے بعد پنجاب ہائوس اسلام آباد پرویز خٹک اور جہانگیر ترین نے ’’ناراض ‘‘ مسلم لیگیوں سے ملاقات کی وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو خاص طور اسلام آباد بلوایا گیا وہ بھی اس ملاقات میں موجود تھے۔ حکومتی حلقوں کی جانب سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے ’’سب اچھا ہے ، حکومت گرنے کا کوئی امکان نہیں ‘‘ لیکن حکومتی حلقوں میں ’’افرا تفری ‘‘ سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حکومت کو ’’فکر‘‘ لاحق ہو گئی ہے۔ مذاق مذاق میں ’’ ان ہائوس ‘‘ تبدیلی کا ’’ شوشہ‘‘ حقیقت کا روپ نہ دھار لے اس لئے حکومت کی طرف سے ’’اتحادیوں‘‘ کی ناراضی کو قدرے سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے۔ دوسری اتحادی جماعتوں بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل)، گرینڈ ڈیمو الائنس اور مسلم لیگ( ق) کو بھی اپنے’’ مطالبات‘‘ یا د آگئے ہیں وزیر اعظم عمران خان نے صورت حال کی سنگینی کے پیش نظر ایم کیو ایم پاکستان سمیت تمام اتحادی جماعتوں کے تحفظات دورکرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ گورنر سندھ عمران اسماعیل گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس کے سربراہ پیر صاحب پگارا کے ہاں’’ حاضری ‘‘دے چکے ہیں۔ بظاہر ’’ان ہائوس ‘‘ تبدیلی کے کوئی آثار نظر نہیں آتے لیکن جس طرح حکومتی حلقوں میں ’’افراتفری‘‘ نظر آرہی ہے‘ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کچھ ہونے والا ہے جس کو غیرموثر بنانے کے لئے پوری حکومت ’’توپ تفنگ‘‘ لے کر میدان میں اتر آئی ہے حکومت نے کسی ممکنہ ’’موو‘‘ کو غیر موثر بنانے کے اتحادیوں کے شکوے شکایات دور کرنے کے از سرنو وعدے شروع کر دئیے ہیں ۔
جمعیت علما ء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمنٰ سیاسی منظر تبدیل کرنے کی جس یقین دہانی کے بعد اسلام آباد سے دھرنا ختم کر کے واپس چلے گئے تھے اسکے عملی شکل اختیار کرنے کی امید میں اسلام آباد میں ’ڈیرے ڈال رکھے ہیں ۔پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری پہلے ہی ایم کیو ایم کو ’’ اپوزیش کیمپ ‘‘ جائن کرنے کے عوض سندھ حکومت میں ایم کیو ایم کو بہت کچھ دینے کی پیشکش کر چکے ہیں ۔ تاحال ایم کیو ایم نے پیپلز پارٹی کی پیشکش قبول نہیں کی اگرچہ خالد مقبول نے کہا ہے کہ’’ ان ساری چیزوں کا پیپلز پارٹی کی آفرسے لینادینانہیں، میراوزارت میں بیٹھنابہت سارے سوالات کوجنم دیتاہے اس لئے میں وزارت میں نہیں بیٹھ رہا قومی اسمبلی میں متحدہ کی مجموعی طور پر7 نشستیں ہیں، حکومت سے علیحدگی کی صورت میں حکومت کو بڑا دھچکا لگ سکتا ہے حکمران جماعت تحریک انصاف کی 156، مسلم لیگ ن کی 84، پیپلزپارٹی کی 56، متحدہ مجلس عمل کی 16 اور مسلم لیگ ق کی5 نشستیں ہیں۔اسکے علاوہ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کی 3، عوامی مسلم لیگ، عوامی نیشنل پارٹی اور جمہوری وطن پارٹی کی ایک، ایک، بلوچستان نیشنل پارٹی کی 4، بلوچستان عوامی پارٹی 5 اور آزاد ارکان کی تعداد 4 ہے۔حکمران اتحاد کے پاس مجموعی طور پر183 نشستیں ہیں جبکہ حزب اختلاف کے پاس 158نشستیں ہیں۔ایم کیو ایم پاکستان کے اپوزیشن کیمپ جائن کرنے سے یہ تعداد 165ہو جاتی ہے اس طرح حکومت کی پارلیمانی قوت 176 رہ جاتی ہے۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کی بھی کور کمیٹی کا اجلاس ہو چکا ہے جس میں بی این پی کے رہنما ڈاکٹر جہانزیب جمال نے حکومتی کمیٹی کے ارکان جہانگیر ترین ، بیرسٹر فروغ نسیم ، اعظم سواتی سے ہونے والی بات چیت سے آگا ہ کردیا ہے ‘ حکومت نے گوادر پورٹ اتھارٹی آرڈیننس 2002میں مزید ترمیم لانے اور لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے اقدامات کی یقین دہانی کرائی ہے ۔ بی این پی گوادر میں غیر مقامی افراد کو شناختی کار ڈ میں مستقل پتہ درج کرنے اور انہیں ووٹ کا حق دینے کی مخالف ہے اب دیکھنا یہ ہے حکومت بی این پی کے اس مطالبہ پر کس حد تک عمل درآمد کرنے کی پوزیشن میں ہے کیونکہ یہ قانون صرف گوادر کے لئے نہیں بنایا جاسکتا بلکہ اس کا اطلاق پورے ملک میں ہو گا۔
اتحادی جماعتوں کی ’’بغاوت‘‘ سے پی ٹی آئی کے اقتدار کا سورج ہمیشہ کے لئے ڈوب سکتا ہے حکومت نے وزیر قانون فروغ نسیم کو بھی ایم کیو ایم کو راضی کرنے میں اپنا ’’ کردار‘‘ اداکرنے کی درخواست کی لیکن ایم کیو ایم سے تعلق ہونے کے باوجود ایم کیو ایم کا کوئی لیڈر ان سے بات کرنے کیلئے تیار نہیں۔ ایم کیو ایم کا کہنا ہے ان کو ہمارے کوٹے سے وزیر نہیں بنایا گیا بلکہ وہ کابینہ میں کسی اور کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کی صفوں میں ایم کیو ایم کے کابینہ میں واپس نہ آنے پر ’’پریشانی ‘‘ پائی جاتی ہے ۔ مسلم لیگ (ن) کے صدر و قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف کے لندن میں قیام نے طوالت پکڑ لی ہے انکے فوری طور پر وطن واپس آنے کا کوئی امکان نہیں ‘ وہ لندن میں بیٹھ کر ہی سیاست کے’’ تانے بانے ‘‘ بن رہے ہیں اور عبوری مدت کیلئے ’’ان ہائوس ‘‘ تبدیلی کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ جوں ہی ان کی خواہش پوری ہو نے کی صورت نظر آئیگی وہ اسلام آباد کی جانب رخت سفر باندھ لیں گے ۔ ایم کیو ایم کی’’ بغاوت‘‘ کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا کہ وزیر اعظم عمران خان کے بلانے پر خالد مقبول صدیقی نے اسلام آباد آنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ اگر وزیر اعظم عمران خان نے ان سے ملنا ہی تو وہ جب کراچی آئیں گے تو ان سے ملاقات ہو جائے گی۔ سروسز ایکٹس میں ترامیم کی حمایت پر متحدہ حزب اختلاف تقسیم ہو کر رہ گئی ہے جبکہ اپوزیشن کی 9 جماعتوں پر مشتمل رہبر کمیٹی ٹوٹنے کا خطرہ بھی بڑھ گیا ہے۔ جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمنٰ نے کہا ہے کہ’’ اگر اپوزیشن ہی بکھر جائے تو حکومت کو کس طرح کمزور کیا جا سکتا۔ اپوزیشن کی وحدت سے ہی حکومت کمزور ہوتی ہے‘‘۔ مسلم لیگ (ق) لیگ نے حکومت کو مطالبات پر عملدرآمد کیلئے ایک ہفتے کی ’’ڈیڈ لائن‘‘ دی ہے اور حکومت سے ایک ہفتے میں مطالبات پر عمل درآمد کے بعد ہی حکومت سے مزیدبات چیت ہو سکتی ہے۔ مسلم لیگ (ق) کے رہنمائوں نے اس پراپیگنڈا پر بھی شدید ناراضی کا اظہار کیا ہے کہ مسلم لیگ (ق) مونس الٰہی کو وزیر بنانے کیلئے سب کچھ کر رہی ہے مسلم لیگ (ق) کے رہنمائوں نے کہا کہ انکے مطالبات میں مونس الٰہی کو وزیر بنانا شامل نہیں مسلم لیگ (ق) کے وفد نے ملاقات سے قبل حکومتی کمیٹی پر واضح کر دیا کہ اگر ملاقات کے بعد حکومتی کمیٹی کی جانب سے یہ تاثر دیا گیا کہ مسلم لیگ (ق) مونس الٰہی کو وزیر بنوانا چاہتی ہے تو پھر یہ ہماری آخری ملاقات ہو گی۔ عوامی مسلم لیگ شیخ رشید احمد پی ٹی آئی کے واحد اتحادی ہیں جو ہر حال میں خوش ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ ’’کوئی عدم اعتماد کی تحریک نہیں آرہی۔ فروری مارچ میں سیاست اوپر نیچے ہوگی لیکن عمران خان ہی وزیراعظم رہیں گے۔