مشرق وسطیٰ۔۔ کس کی جیت؟

Jan 19, 2020

ڈاکٹر احمد سلیم

یہ عرب ممالک جو پہلے ہی اتنا اسلحہ اکٹھا کر چکے ہیں کہ وہ تمام دنیا کو تباہ کر سکتا ہے، اب مزید اسلحہ خریدیں گے۔ معلوم نہیں کہ یہ اسلحہ کبھی استعمال بھی ہو گا یا نہیں ( اللہ کرے نہ ہی ہو، اور اگر ہو تو کسی مسلمان ملک کے خلاف نہ ہو) ۔ ان ممالک میں سے اکثر میں بادشاہت ہے جس میں ریاست در اصل حکمران خاندان کا ہی نام ہوتی ہے۔ ہمیں شاید لگے کہ امریکہ اور مغربی ممالک سے اتنا مہنگا جنگی سازو سامان خریدنے کی وجہ سے اس تمام صورتحال میں ان ممالک کی کم از کم معاشی ہار تو ہوگی۔ لیکن خدا کے عطا کردہ پیسے کی جتنی فراوانی ان کے پاس ہے، ان کے لیے پیسے کی کوئی زیادہ اہمیت نہیں ہے ۔ اس کے علاوہ یہ پیسہ خرچنے کے نتیجے میں جہاں امریکہ اور اسکے حواری ممالک کی تجوریاں بھریں گی وہاں ان عرب ممالک کو بھی اس کے بدلے میں فائدہ ہی فائدہ ہے۔ انکو عوام کا اعتماد ملے گا کہ ان حکمران خاندانوں نے ملک اور عوام کی حفاظت کے لیے کتنا پیسہ خرچ کیا ہے، کتنے امریکی اور یورپی کنسلٹنٹ رکھے ہیں اور کتنی فرنگی افواج (بمطابق امریکی خواہش اور ضرورت ) اپنے خرچ پر اپنی سرزمین پر تعینات ہونے دی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ان حکمران خاندانوں کو یہ حوصلہ بھی ملے گا کہ اس سب کے نتیجے میں دنیا کا چوہدری امریکہ ان سے خوش رہے گا اور مستقبل قریب میں اس بات کا کوئی امکان نہیں ہو گا کہ چوہدری صاحب ان سے ناخوش ہو کر ان ممالک میں جمہوریت کا مطالبہ یا کسی بہانے انسانی حقوق کے حق میں کسی طرح کے اقدامات کی حمایت نہ کر دیں۔ یعنی ان تمام عرب ممالک کی بھی جیت ہی جیت ہے۔
جہاں تک ہمارا سوال ہے تو پاکستان بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کی کوشش میں ہیں۔ ایک تو ہماری حکومت عوام کو بار بار یہ بتائے گی کہ اس نے امریکہ کو فوجی اڈے نہیں دیے۔( معلوم نہیں مانگے کس نے تھے؟) اور دوسرا یہ کہ پاکستان کی سفارتی کوششوں سے مشرق وسطیٰ میں جنگ ہوتے ہوتے رہ گئی۔ نہ تو کوئی یہ سوال کرے گاکہ ایران کے چاروں جانب اور بیشتر عرب ممالک میں پہلے ہی امریکی فوج اور اڈے موجود ہیں پھر امریکہ کو ہمارے اڈوں کی ایسی کیا ضرورت پڑ سکتی تھی؟ اور نہ یہ پوچھا جائیگا کہ پاکستان ، جو امریکہ تو کیا، O.I.C سے کشمیر کے حق میں ایک واضح قرارداد پاس نہ کروا سکا اس نے ان ممالک کے درمیان ہونے والی ممکنہ جنگ کیسے روکوا دی؟ اس طرح ہماری حکومت دنیا میں اپنی سفارت اور سفارتی کامیابیوں کا دعویٰ کرے گی اور اسکے ووٹر سوشل میڈیا پر آسمان سر پر اٹھا لیں گے۔ ان سے کوئی یہ سوال بھی نہیں پوچھے گا کہ اپنی اتنی عظیم سفارتی صلاحیتیں کو، جو چند گھنٹوں اور دنوں میں امریکہ، ایران اور عرب ممالک پر اثر انداز ہو جاتی ہیں، پاکستان نے آج تک مقبوضہ کشمیر کے لیے کیوں استعمال نہیں کیا۔ اب تو ہم کشمیر کے لیے جمعہ کو ہونے والا ہفتہ وار علامتی احتجاج بھی بھول چکے ۔
کشمیرکا درد محسوس کر کر کے ٹوئٹ کرنے والے وزیر اعظم صاحب کے کشمیر کے متعلق ٹوئٹ کم ہو تے جا رہے ہیں اور لگتا ہے کہ کچھ دنوں یا ہفتوں کی بات ہے کشمیر کے بارے میںانکے ٹوئٹ تک بالکل بند ہو جائیں گے۔ الغرض اس قسم کا کوئی بھی سوال اٹھانے کی بجائے انکے سپورٹر فیس بک اور سوشل میڈیا پر پاکستان کی سفارتی فتوحات کے شادیانے بجا بجا کر بھنگڑا ڈالیں گے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہمیں ایک دو عرب ممالک سے کچھ مزید امداد بھی مل جائے اور ہم اعلان کریں کہ اب اس سے پاکستان کی معاشی مشکلات حل ہونے والی ہیں، بس تھوڑا انتظار اور۔
یہ بھی نا ممکن نہیں کہ امریکہ اپنا کوئی پرانا اسلحہ جو اسکے گوداموں میں سڑ رہا ہو ہمیں بیچنے کا اعلان کر کے وہ پیسہ واپس لے جانے کی منصوبہ بندی کئے بیٹھا ہو اور ہم یہ اعلان بھی کر سکیں کہ ہماری سرکار نے اپنے تدبر اور سفارتی طاقت سے پاکستان کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنا لیا ہے۔ مختصر یہ کہ پاکستان کی حکومت کے حصے میں بھی کچھ نہ کچھ جیت ہے۔
رہا ایران تو ایران کی بھی جیت ہی جیت ہے۔ جنرل قاسم سلیمانی ایرانی عوام میں اتنے زیادہ مقبول ہو گئے تھے کہ کہا جاتا ہے کہ اگر کبھی وہ الیکشن لڑتے تو انکی جیت یقینی ہوتی۔انکی اسی مقبولیت سے امریکہ سمیت ’’بہت سے لوگ‘‘ خائف تھے۔ بہرحال ایران نے جوابی میزائل حملو ں سے تمام دنیا اورخاص طور پر اپنے عوام کو بتا دیا ہے کہ وہ کسی کے آگے نہیں جھکا اور اس کے عوام جان لیں گے۔ کہ ایرانی حکومت نے امریکہ کے آگے گھٹنے ٹیکنے کی بجائے اسے ایسا سبق سکھایا کہ وہ مذاکرات کی میز پر آ نے پر مجبور ہو گیا۔ اس کے علاوہ کوئی نیا ایران امریکہ معاہدہ ہونے کی صورت میں ایران کو مالی امداد اور اسکے علاوہ بھی کچھ نہ کچھ مل ہی جائے گا۔ ایران کو امداد کے ساتھ تجارت کی اجازت ملے گی تو اسکا فائدہ بھارت اور ترکی کو سب سے زیادہ ہو گا۔ لیکن اس میں ٹائم لگے کا اسی لیے بھارت ابھی اس تمام صورتحال میں خاموش ہے اور اپنی باری کا انتظار کر رہا ہے۔ ویسے بھی جس کو تمام صورتحال کا ادراک ہو اسے شور مچانے کو ضرورت نہیں ہوتی بلکہ وہ وقت آنے پر اپنا حصہ وصول کر کے سائڈ پر ہو جاتا ہے۔
اس تمام صورتحال میں غلطی سے گرا دیے جانے والے یوکرائین کے طیارے کے مسافروں کے بارے میںنہ تو کوئی سوچے گا اور نہ کسی کے ذہن میں یہ سوال آئے گا کہ ایران کی افواج اس قدر افرا تفری کا شکار تھیں اور انکے الیکٹرانک جنگی ساز و سامان کا یہ حال ہے کہ وہ ایک مسافر طیارہ، جس کے روانہ ہونے کے وقت اور جگہ کا انکو پہلے سے معلوم تھا کو گرانے کی غلطی کر بیٹھے لیکن پھر بھی امریکی اڈوں پر انکے میزائل ٹھیک وقت پر ٹھیک نشانے پر پہنچے۔ یہ سوال بھی کسی کے ذہن میں نہیں آئے گا کہ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک نے یوکرائین کے طیارے کو گرانے والے ایرانی میزائلوں کی پرواز کو تو لمحہ لمحہ مانیٹر کیا۔ اس کا تمام ڈیٹا انکے پاس رئیل ٹائم میں موجود تھا یہاں تک کہ ویڈیو بھی مل چکی ہے۔ لیکن ایران نے جو میزائل بغداد میں موجود امریکی اڈوں پر داغے تھے انکو خلا میں موجود تیس ہزار مصنوعی سیاروں میں سے کوئی مانیٹر نہ کر سکا اور امریکہ بر وقت جوابی کاروائی کر کے انکو راستے میں تباہ کرنے میں ناکام رہا۔ اگر یہ سوال کبھی ذہن میں آئے بھی تو بطور مسلمان ہمیں یقین کرنا ہو گا کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی نصرت ہو گی اور کوئی وجہ نہیں ہو سکتی۔ اس طرح ایرانی حکومت کی بھی جیت ہی جیت ہے۔ پھر ہارا کون؟ کیا اس گرائے جانے والے طیارے کے مسافر ہارے؟ یا پھر ان ممالک کے عوام؟ کچھ خاندان اور کچھ آدمی جیت گئے اور کروڑوں ’’ انسان‘‘ ہار گئے کیونکہ وہ عام انسان ہیں اور جب سے یہ ’’ تہذیب یافتہ‘‘ دنیا وجود میں آئی ہے ، حقیقی فتح ہمیشہ حکمرانوں، انکے خاندانوں اور دنیا کی معیشت کو کنٹرول کرنے والا مافیا کا حق رہی ہے اور رہے گی۔عام انسان اور انسانیت ہارتی آئی ہے اور ہارتی رہے گی۔ یہ اصول طے ہو چکا ہے اور مستقبل قریب میں اس میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں۔ (ختم شدہ)

مزیدخبریں