ملک میں کپاس کی پیداوار تشویش ناک حد تک کم ،کاٹن بیلز کی درآمد شروع

کراچی(کامرس رپورٹر)پاکستان کاٹن جنرزایسوسی ایشن کے چیئرمین ڈاکٹر جسومل نے کہا ہے کہ ملک میںکپاس کی پیداوار شدید کمی کا شکار ے اور اگر حکومت نے کپاس کی پیداوار میںاضافے پر توجہ نہ دی تو ملک میںٹیکسٹائل کی صنعت کیلئے کپاس کا حصول نا ممکن ہوجائیگا اور بر آمدات انتہائی سطح تک گر جائیںگی،وہ گزشتہ روز کراچی پریس کلب میںملک میںکپاس کی پیداوار میںاضافے اور جننگ انڈسٹری کو درپیش مسائل کے حوالے سے پریس کانفرنس کررہے تھے۔پاکستان کاٹن جنرزایسوسی ایشن کے چیئرمین ڈاکٹر جسومل اور دیگر اراکین کا پریس کانفرنس کے دوران کہنا تھا کہ پاکستان دنیا بھر میں چوتھے نمبر پر کپاس پیدا کرنے والا ملک تھا،مگر حکومتی ناکام پالیسیوں کے باعث ملک میں روئی کی پیداوار میں ریکارڈ کمی ہوئی اور کپاس کی پیداوار گزشتہ تین دہائیوں کی کم ترین سطح پر آگئی ہے،ایک کروڑ 50 لاکھ بیلز حاصل کرنے والا ملک صرف 55لاکھ بیلزپر آگیاہے،کپاس کی پیداوار میں کمی سے کاشتکار، جنرز، اسپننگ وویونگ انڈسٹریز ، ٹیکسٹائل اور ایکسپورٹ سیکٹر شدید متاثر ہوگا،پیداوار میں کمی حکومتی پالیسیوں کی ناکامی اور کپاس کی کاشت پر عدم توجہ کا منہ بولتا ثبوت ہے،ہم وفاقی اور صوبائی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ زراعت کی تشویشناک صورتحال کا نوٹس لیں۔حکومت نے اگر سنجیدہ اقدامات نہ کئے تو پاکستان روئی کی کاشت سے محروم ہوجائے گا۔ ڈاکٹر جسومل نے مزید کہا کہ ہم اپنے کاشتکاروں کو آگاہی اور بیج نہیں دے سکے ،کاشتکاروں کو کم لاگت اور زیادہ پیداوار کے حوالے سے آگاہی دینا ہوگی،دنیا بھر میں کپاس کی کاشتکار کیلئے جدید ٹیکنالوجی اور بیج استعمال کئے جارہے ہیں،تا ہم پاکستان میںریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ انسی ٹیوٹ، جدید کاشت اور نئے بیجوں پر کوئی کام نہیں کررہا ہے،رواں برس ہمیں 80لاکھ بیلز در آمد کرنا ہوگی،نئے بیج کی ٹیکنالوجی کے بغیر کپاس کی پیداوار بڑھانا ممکن نہیں ہے،موسم کی صورتحال کے مطابق خاص علاقوں میں مختلف پیداوار ہوتی تھی،سیاسی مداخلت کے باعث کپاس کی کاشت کے علاقوں کا خاتمہ ہوچکا ہے،حکومت کی جانب سے 6ملین روپے کی رقم وائٹ فلائی کیلئے رکھی گئی ہے،مگر سیڈ ڈویلپمنٹ کیلئے کوئی رقم نہیں رکھی گئی،ملک میںشوگر انڈسٹریز کو فروغ دینے کیلئے کاٹن کی صنعت کوتباہ کیاگیا،ہمارا مطالبہ ہے کہ حکومت تمام اسٹیک ہولڈرز پر مشتمل کاٹن بورڈ تشکیل دے تا کہ ملک میںکپاس کی کاشت کے مستقبل کو محفوظ بنایا جاسکے ۔

ای پیپر دی نیشن