ٹرمپ کا مواخذہ اور جوبائیڈن کی حلف برداری

کل صبح بیس جنوری کو امریکہ کے 45 ویں صدر ٹرمپ نو منتخب صدر جوبائیڈن کی دوپہر کو ہونے والی تقریب حلف برداری سے قبل وائٹ ہائوس چھوڑ دیں گے وہ واشنگٹن ڈی سی سے بذریعہ ہیلی کاپٹر فلوریڈا میں واقع اپنے مارا لاگو گولف کلب میں منتقل ہو جائیں گے ٹرمپ کا اپنی اس قانونی رہائش گاہ میں مستقل سکونت اختیار کرنے کا امکان ہے وائٹ ہائوس چھوڑنے سے قبل ہی ٹرمپ کو اپنی مدت صدارت میں دوسری بار مواخذے کا سامنا ہے اْن پر امریکی ایوان نمائندگان کا سخت الزام ہے کہ 6 جنوری کو کیپٹل ہل میں اْن کے حامیوں نے اْس وقت مسلح ہلہ بول دیا تھا جب کیپٹل ہل میں نومبر 2020 میں ہونے والے امریکی الیکشن کے ووٹوں کا حتمی فیصلہ کیا جا رہا تھا۔ کیپٹل ہل میں ہونے والے فسادات میں ایک خاتون سمیت 4 امریکی ہلاک ہو گئے تھے اور واشنگٹن پولیس کے سربراہ رابرٹ جے کانٹی کے مطابق مظاہرین کے حملے سے 14 پولیس اہلکار بھی زخمی ہوئے 52 مظاہرین گرفتار ہوئے۔ حالات پر کنٹرول کرنے کے لیے واشنگٹن کے میئر میورئیل برائون نے 15 دن کی ایمرجنسی اور کرفیو نافذ کر دیا تھا۔ ان فسادات کے باوجود امریکی نائب صدر اور سینٹ کے صدر کی جوائنٹ صدارت میں امریکی ووٹوں کی تصدیق کا مرحلہ طے پایا جس میں میں 538 الیکٹورل ووٹ میں سے جو بائیڈن اور کملا ہیرس نے 306 ووٹ حاصل کیے ٹرمپ اور پنس نے 232 ووٹ حاصل کیے جس کے نتیجہ میں نائب امریکی صدر پنس نے جو بائیڈن اور کملا ہیرس کو 2020 کے امریکی انتخابات کا فاتح قرار دیا جو کل اپنے عہدوں کا قانونی حلف اْٹھائیں گے۔ٹرمپ نے ٹویٹ کیا ہے کہ وہ جو بائیڈن کی تقریب حلف برداری میں شرکت نہیں کریں گے۔ امریکی قانون کے مطابق سابق صدر نومنتخب صدر کو اقتدار کی منتقلی اور تقریب حلف برداری میں شریک ہوناہوتا ہے۔ امریکہ کی دو سو سالہ تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوگا کہ سابق امریکی صدر نئے امریکی صدر کی تقریب حلف برداری میں شریک نہیں ہوگا اور نہ ہی کسی امریکی صدر کا دو بار مواخذہ ہوگا۔ کسی بھی نئے امریکی صدر کے پہلے 100 دن انتہائی اہم ہوتے ہیں لیکن جو بائیڈن اقتدار سنبھالنے کے بعد اپنی پالیسیوں پر گامزن ہونے کی بجائے صدر ٹرمپ کے مواخذے میں اْلجھتے دکھائی دے رہے ہیں کیونکہ ٹرمپ ری پبلکن کے بڑے لیڈر ہیں اور 2020 کے امریکی الیکشن میں سات کر وڑ امریکیوں نے اْنہیں ووٹ دئیے ہیں اْن کے حامی ووٹرز اور خود ٹرمپ الیکشن کی شکست کو کسی صورت بھی قبول نہیں کر رہے۔ گو امریکی قانون اور الیکشن نتائج کے مطابق صدارت کے اختیارات جو بائیڈن کو منتقل ہوجائیں گے اور ٹرمپ کے متنازعہ اشتعال انگیز بیانات کے باعث اْن کے سوشل میڈیا اور ٹوئٹر اکائونٹ دوبارہ مستقل بند کر دئیے گئے ہیں لیکن وہ اپنا سیٹلائٹ ٹی وی لانچ کر کے اپنے سات کروڑ حامیوں کی طاقت سے نو منتخب صدر جو بائیڈن کے دور صدارت میں مستقل مسائل کھڑے کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔امریکی صدر جو بائیڈن کے کل حلف اْٹھانے کے بعد ٹرمپ کے فوری مواخذے کے عمل کے شروع ہونے کا امکان ہے۔ امریکی ایوان نمائندگان کی سپیکر نینسی پلوسی نے اس مواخذے کے آرٹیکل قانون کے مطابق سینٹ کو بھجوانے ہیں جو ابھی تک شاید اس لیے نہیں بھجوائے گئے کہ 19 جنوری تک ری پبلکن لیڈر مِک کونل سینٹ میں قائد کی حیثیت سے موجود ہیں گو ری پبلکن لیڈر مِک کونل اور اْن کی اہلیہ ٹرانسپورٹیشن سیکرٹری ایلین چاو نے کیپٹل ہل میں فسادات کے بعد ٹرمپ کابینہ سے استعفیٰ دے دیا تھا لیکن ٹرمپ کے مواخذے میں وہ کس کو ووٹ دیتے ہیں یہ ابھی اْنہوں نے واضح نہیں کیا کیونکہ مِک کونل نے ٹرمپ کے حق میں ووٹ دے دیا تو باقی ری پبلکن بھی اْس کی پیروی کر سکتی ہے اور ٹرمپ کو مواخذے میں سزا دلانے کے لیے کم از کم 18 ری پبلکن کو ٹرمپ کے خلاف ووٹ دینا ہوگا 1999 میں بل کلنٹن اور 2019 میں ٹرمپ کے خلاف مواخذے کی سینٹ نے آرٹیکل موصول ہوتے ہی اگلے دن کارروائی کر دی تھی۔ اب 20 جنوری کو امریکی نومنتخب  نائب صدر کملا ہیرس حلف اْٹھانے کے بعد امریکی سینٹ کی سرباہ بن جائیں گی اور جارجیا سے منتخب ہونے والے ڈیموکریٹک سینٹر چک ثمر امریکی سینٹ کے لیڈر کا چارج سنبھال لیں گے جن کی موجودگی میں سابق صدر ٹرمپ کے مواخذے کا ٹرائل آگے چلے گا اگر سینٹ ٹرمپ کو قصوروار ٹھہراتا ہے تو اگلے امریکی صدارتی الیکشن کے لیے اْنہیں نا اہل کرانے کی قرار داد آنے کا امکان بھی ہو گا۔دنیا کے سب سے طاقتور اور با اختیار کہلانے والے امریکی صدر کی تقریب حلف برداری کی سکیورٹی کے لیے کل بیس ہزار نیشنل گارڈ تعینات ہوں گے اور واشنگٹن میں 24 جنوری تک ایمرجنسی نافذ رہے گی۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن