کرنل (ر) ڈاکٹر جمشید احمد ترین نے زندگی کا ہر لمحہ کتنے بھرپور انداز میںجیا اور اپنے چاہنے والوں کے دل و دماغ کو اپنے خلوص، محبت اور ایثار سے کچھ اس طرح مسخر کیا کہ وہ آج بھی انہیں اپنے درمیان موجود پاتے ہیں۔وہ ایک انتہائی وجیہہ شخصیت کے مالک تھے اور ضعیف العمری میں تو ان کی وجاہت، خوش لباسی، خوش کلامی مخاطب کو اسیر کرلیتی تھی ؎
ہائے وہ لوگ جو اِک لمحہ اچانک مل کر
زندگی بھر کے لیے دل میں سما جاتے ہیں
آپ نے فارمین کرسچین کالج (FCC)لاہور اور کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج (KEMC)لاہور سے تعلیم حاصل کی۔ دورانِ تعلیم مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے پلیٹ فارم سے تحریکِ پاکستان میں انتہائی متحرک کردار ادا کیا۔ ایف سی کالج میں جن طلبہ نے مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کی بنیاد رکھی، ان میں جمشید احمد ترین، سید احمد سعید کرمانی اور شیخ حامد محمود شامل تھے جبکہ حمید نظامی ان دنوں پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے جنرل سیکرٹری کے طور پر ان طلبہ کی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دے رہے تھے۔ ایف سی کالج سے ایف ایس سی کرنے کے بعد انہوں نے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں داخلہ لیا۔ وہاں ان کا ایک کلاس فیلو تاج محمد ملک (راولپنڈی) ایم ایس ایف کا سرگرم کارکن تھا۔ جمشید احمد ترین نے اس کے ساتھ مل کر کالج میں مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کی داغ بیل ڈالی اور اس تنظیم کے سیکرٹری جنرل کے طور پر اپنی ذمہ داریاں بطریقِ احسن نبھائیں۔ تعلیم سے فراغت کے بعد انہوں نے پاکستان بری فوج کی میڈیکل کور میں شمولیت اختیار کرلی۔ 1971ء میں وہ نو ماہ تک مشرقی پاکستان میں تعینات رہے۔ آپ وہاں کمبائنڈ ملٹری ہاسپٹل (CMH)کومیلا کے کمانڈنگ آفیسر تھے۔ انکی انسان دوستی اور غریب پروری کی بدولت فوج کے بنگالی سپاہیوں کے دل میں ان کے لیے بے حد محبت اور احترام کے جذبات پائے جاتے تھے۔ انہوں نے راقم سے ایک انٹرویو کے دوران کہا تھا کہ دراصل مغربی پاکستان کے افسران کا بنگالیوں کے ساتھ سلوک حاکمانہ تھا جس سے بھارت اور اس کے کاسہ لیسوں نے فائدہ اُٹھایا۔ انکے مطابق مشرقی پاکستان کے تعلیمی اداروں میں ہندو اساتذہ بنگالی طلبہ کو پاکستان کے خلاف تعلیم دیتے تھے تاہم عام بنگالی پاکستان سے بہت محبت کرتے تھے۔ آپ اندازہ کرلیں کہ میمن سنگھ یونیورسٹی میں اسلامیات کا پروفیسر تک ہندو تھا۔ بہرحال عہدِ حاضر کی تاریخِ اسلام کے اندوہناک سانحہ یعنی سقوطِ مشرقی پاکستان کا آپ نے بچشمِ خود مشاہدہ کیا۔ آپ نے اگلے دو سال بھارت کے جنگی قیدی (POW)کے طور پر رام گڑھ اور آگرہ میں گزارے۔ ان حالات و واقعات نے انکے قلب و روح پر جو نشتر چلائے، ان کے زخم تاحیات مندمل نہ ہوسکے۔ کرنل جمشید احمد ترین نے 93برس کی عمر پائی۔ وہ آخر دم تک ذہنی طور پر مستعد اور چوکنا رہے۔ راقم نے سانحۂ مشرقی پاکستان کے اسباب اور اس دوران پیش آنے والے واقعات کے متعلق انکی یادداشتوں کو ایک انٹرویو کی صورت ریکارڈ کیا تھا۔ جب ان سے سوال کیا کہ شخصی لحاظ سے اندرا گاندھی، ذوالفقار علی بھٹو، شیخ مجیب الرحمن اور جنرل آغا محمد یحییٰ خان میں سے آپ کس شخصیت کو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا زیادہ ذمہ دار سمجھتے ہیں تو انہوں نے برملا جواب دیا: ’’میں بوڑھا ضرور ہوگیا ہوں لیکن بے عقل نہیں ہوا۔ آپ میرا مطلب سمجھ گئے ہوں گے۔‘‘
انہوں نے فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد لاہور کے مشہور شفاخانے سرگنگا رام ہسپتال کے ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے گرانقدر خدمات سرانجام دیں اور اسکے توسیعی منصوبوں کو اپنی نگرانی میں پایۂ تکمیل تک پہنچایا۔ انہوں نے جدوجہد آزادی کے دیگر کارکنوں کے ہمراہ ’’مجلسِ کارکنان تحریک پاکستان‘‘ کے پلیٹ فارم پر بڑا فعال کردار ادا کیا۔ گزشتہ روز ان کی پانچویں برسی کے موقع پر ان دونوں قومی اداروں کے اشتراک سے محفل قرآن خوانی کے اہتمام کیا گیا جسکے بعد نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے وائس چیئرمین میاں فاروق الطاف کی زیر صدارت منعقدہ نشست میں کرنل (ر) ڈاکٹر جمشید احمد ترین کے ہم عصروں اور اہل خانہ نے انکی حیات و خدمات پر روشنی ڈالی۔ انکے بڑے صاحبزادے اور پاکستان کے سابق وزیر خزانہ شوکت ترین بطور خاص کراچی سے تشریف لائے۔ انکے دوسرے صاحبزادے عظمت شہزاد ترین اور انکے دو بیٹے طٰہٰ احمد ترین اور زین احمد ترین بھی اس محفل میں موجود تھے۔ نشست کی نظامت کے فرائض نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے سیکرٹری شاہد رشید نے بڑی عمدگی سے نبھائے۔ نشست کے آغاز میں قاری محمد صدیق چشتی نے سورۃ الرحمن کی تلاوت کی جبکہ ممتاز نعت خواں الحاج اختر حسین قریشی نے بارگاہ رسالت مآب ؐ میں حضرت پیر سید نصیرالدین نصیر گیلانی کا نذرانۂ عقیدت پیش کیا۔ علامہ نصیر احمد قادری نے ختم شریف پڑھا اور مولانا محمد شفیع جوش نے کرنل (ر) ڈاکٹر جمشید احمد ترین کے بلندیٔ درجات کیلئے دعا کرائی۔ نشست میں میاں فاروق الطاف ‘ شوکت ترین‘ بیگم مہناز رفیع اور بیگم صفیہ اسحاق نے کرنل صاحب کے حوالے سے اپنی یادوں کے اوراق پلٹے۔ شوکت ترین نے کہا کہ وہ قائداعظم محمد علی جناحؒ کے مخلص پیروکارا ور سچے پاکستانی تھے۔ انہوں نے پاکستان کے محفوظ اور روشن مستقبل کے لیے اپنی تمام تر امیدیں پاکستان کی نسل نو سے وابستہ کر لی تھیں۔ شوکت ترین کا کہنا تھا کہ بھارت کا اپنے ہاں مسلمانوں سے روا رکھے جانیوالا بہیمانہ سلوک قائداعظمؒ کے دو قومی نظریے کو سچ ثابت کر رہا ہے۔ آج ہمیں ایک قوم کی مانند یکجان اور یک زبان ہونے کی ضرورت ہے اور ایسا اسی صورت ممکن ہے جب ہم قائداعظم محمد علی جناح کے اصولوں پر چلنا اپنا مقصد حیات بنا لیں گے۔ کرنل (ر) ڈاکٹر جمشید احمد ترین کی نظریۂ پاکستان ٹرسٹ اور تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ سے قلبی وابستگی کا یہ عالم تھا کہ جب تک صحت نے اجازت دی وہ تقریباً روزانہ یہاں تشریف لاتے رہے اور جب طبیعت ٹھیک نہ تھی‘ تب بھی اکثر و بیشتر وہیل چیئر پر بیٹھ کر اس ایوان کو رونق بخشتے رہے۔ نشست کے اختتام پر حاضرین میں لنگر تقسیم کیا گیا۔
قارئین کرام! اس دارِ فانی سے دارِ بقاء کی طرف ہجرت کر جانے والے کبھی لوٹ کر نہیں آتے لیکن ان کی باتیں پیچھے رہ جانے والوں کی یادوں کو مہکائے رکھتی ہیں۔ کرنل (ر) ڈاکٹر جمشید احمد ترین آج ہم میں نہیں ہیں مگر ان کے نقوشِ پا ہمیں ہمہ وقت یاد دلاتے رہتے ہیں کہ ایک پاکستانی کو کیسا ہونا چاہئے۔ حضرت پیر سید نصیرالدین نصیر گیلانی کا درج ذیل شعر سرتاپا مادرِ وطن کی محبت سے سرشار اس عظیم انسان کی نذر ہے …؎
وہی بزم ہے وہی دھوم ہے وہی عاشقوں کا ہجوم ہے
ہے کمی تو بس اسی یار کی جو تہہ مزار چلا گیا
٭…٭…٭