گردشی قرضے 400 ارب روپے سے تجاوز کر چکے ہیں‘ گردشی قرضوں کے بڑھنے کی وجوہ میں بجلی کے ضیاع سے لے کر غیرادا شدہ زرتلافی‘ پاور کمپنیوں کے واجبات کی عدم ادائیگی‘ پاور ہولڈنگ کمپنی کا بڑھتا ہوا مارک اپ اور دیگر بدانتظامیاں شامل ہیں۔ رواں مالی سال کے پہلے پانچ ماہ کے دوران 156 ارب روپے اضافے کے بعد گردشی قرضوں کا حجم اس وقت دو ہزار تین سو چھ ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔ جون 2018ء میں یہ ایک ہزار ایک سو اڑتالیس ارب روپے تھا۔ ڈھائی سال میں بجلی کا گردشی قرضہ تقریباً دو گنا بڑھ چکا ہے۔ بجلی چوری آج بھی سسٹم کی ناکامی کا سب سے بڑا سبب ہے۔ بلنگ کا نظام بھی مسائل کا شکار ہے۔ 2013ء میں 480 ارب روپے کے گردشی قرضے تھے جو اس وقت ادا کر دیئے گئے تھے۔ ماہانہ پانچ ارب روپے سے زائد کا اضافہ ہو رہا ہے۔ بجٹ خسارہ 992 ارب روپے ہو چکا ہے۔ صارفین آج تک آٹا‘ چینی سکینڈل کے منطقی انجام کے منتظر ہیں۔ آٹا چینی تحقیقاتی کمیشن رپورٹ ساڑھے نو ماہ پہلے منظرعام پر آئی تھی تاہم ناجائز منافع کمانے والوں کیخلاف کوئی کارروائی سامنے نہیں آئی۔ چینی آج بھی سو روپے فی کلو کے لگ بھگ مل رہی ہے۔ جبکہ بحران سے پہلے چینی کی قیمت اوسطاً پچاس باون روپے فی کلو تک تھی۔ یہی صورتحال آٹے کی قیمتوں کی بھی ہے۔ اسی طرح بجلی کے شٹ ڈائون کے ذمہ داروں کا تعین ہونا باقی ہے۔ بریک ڈائون‘ گدوپاور سٹیشن کے پلانٹ میں فنی خرابی سے ہوا جس کے نتیجہ میں منگلا اور تربیلا پاور ہائوسز سے دس ہزار میگاواٹ بجلی ایک سیکنڈ میں سسٹم سے غائب ہو گئی۔ بجلی کا شٹ ڈائون نیشنل گرڈ کے نظام میں ناکامی‘ ناقص مینٹی ننس اور بدانتظامی کا نتیجہ تھا۔ 2015ء کے بعد ایسا تیسرا واقعہ تھا۔ بجلی کے شعبے میں آر ایل این جی کی بندش کے بعد حکومت فرنس آئل اور ڈیزل پر بجلی پیدا کریگی جس سے اسکے نرخوں میں مزید اضافہ ہوگا۔
حکومتی دعوئوں کے برعکس آٹا کی قیمت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ درآمدی گندم کی 63 ہزار میٹرک ٹن گندم لے کر بحری جہاز کراچی میں لنگرانداز ہوچکا ہے۔ فروری میں ایک اور بحری جہاز گندم لے کر کراچی پہنچے گا۔ حکومت عوام کو ریلیف پہنچانے کیلئے دس ارب روپے سبسڈی کی مد میں خرچ کررہی ہے۔ صرف جنوری میں پنجاب بھر میں بیس کلو آٹا تھیلا دو سو روپے تک مہنگا ہو چکا ہے۔ سبسڈائزڈ آٹا عوام کو نہیں مل رہا۔ فلور ملز کو گندم کے کوٹے میں ایک ہزار میٹرک ٹن کا اضافہ کیا جا رہا ہے جو صوبے کی روزانہ طلب کے 50 فیصد سے بھی زائد ہے۔ سال گزشتہ میں جنوری کے دوران افراط زر کی شرح 14 فیصد ہو گئی جو گزشتہ دس سال کے دوران سب سے زیادہ تھی۔ رواں سال کے دوران بھی پاکستان میں افراط زر کی شرح ایشیاء بھر میں سب سے زیادہ رہنے کے خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے۔ 2020ء میں کرونا کی وجہ سے دنیا نے گزشتہ 74 سالوں کا بدترین معاشی بحران دیکھا۔ تاہم پاکستان میں معاشی سرگرمیاں جاری رہیں۔ گزشتہ چھ ماہ میں ہماری ٹیکسٹائل ایکسپورٹس میں سات فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ترسیلات زر بڑھ کر 2.2 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہیں۔ 30 لاکھ ٹیکس دہندگان رجسٹرڈ ہوئے ہیں۔ زرمبادلہ کے مجموعی ذخائر بیس ارب ڈالر تک پہنچ چکے ہیں۔ 2021ء میں معاشی گروتھ دو سے 2.5 فیصد‘ افراط زر سات سے آٹھ فیصد اور سٹیٹ بنک کے پالیسی ریٹ سات سے آٹھ فیصد کا اندازہ ہے۔ پہلی مرتبہ پاکستان کی ترسیلات زر مسلسل چھ ماہ تک دو ارب ڈالر سے زیادہ رہیں۔ سب سے زیادہ رقوم سعودی عرب سے بھیجی گئیں۔ دسمبر میں برآمدات کا حجم 2.357 ارب ڈالر ریکارڈ کیا گیا۔
ڈھائی سال میں ریلوے کا خسارہ بڑھا ہے۔ ایم ایل ون منصوبہ اب تک کاغذوں اور باتوں تک محدود ہے۔ کابینہ اجلاس میں بڑے بڑے فائلوں کے پلندے لانے پر عمران خان برہم ہوئے ہیں۔ وزیراعظم وزاء کو کارکردگی کے حوالے سے باربار وارننگ دے رہے ہیں۔ انکے نزدیک ڈھائی سال ہوگئے غلطی کی گنجائش نہیں۔ وزیراعظم نے وارننگ دی ہے کہ حکومتی فیصلوں کی اونرشپ میں مخالفت کرنیوالے مستعفی ہو جائیں۔ براڈ شیٹ سکینڈل پر کمیٹی قائم کر دی ہے۔ نیب نے دو سو اہداف کے نام براڈ شیٹ کو فراہم کئے ہیں۔ سابق اعلیٰ فوجی افسر‘ بیوروکریٹس‘ کاروباری شخصیات اور سیاست دانوں کے نام شامل ہیں۔ یوٹیلٹی سٹورز نے خوردنی تیل 19 سے 27 روپے فی لٹر اور گھی 20 سے 22 روپے فی کلو مہنگا کردیا ہے۔ بچوں کے ڈائپر‘ ٹوتھ پیسٹ‘ ہینڈواش‘ صابن بھی مہنگے کر دیئے ہیں۔ گنے کی قیمت بڑھنے سے چینی کی قیمت بھی بڑھے گی۔ ڈھائی ہفتے قبل بھی گھی خوردنی تیل اور پام آئل کی قیمتیں بڑھائی گئی تھیں۔ یوٹیلٹی سٹورز پر مختلف برانڈز کے خوردنی تیل کی قیمت 296 روپے سے بڑھ کر 323 روپے اور 223 روپے سے بڑھ کر 242 روپے فی لٹر ہو گئی۔ ادھر نیپرا نے ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کی مد میں ایک روپے چھ پیسے کا اضافہ کیا ہے جس سے صارفین کے بجلی کے بلوں میں آٹھ ارب روپے کا بوجھ پڑیگا۔ اسی پیمنٹ سسٹم کا نفاذ کیا گیا ہے کیش اکانومی کو ڈیجیٹل اکانومی میں تبدیل کیا جارہا ہے۔ 22 کروڑ کی آبادی میں سے صرف بیس لاکھ افراد ٹیکس دیتے ہیں اور صرف تین ہزار ٹیکس دہندہ 70 فیصد ٹیکس دیتے ہیں۔
سینٹ انتخابات 2021ء کے حوالے سے دو باتیں طے ہونا باقی ہیں۔ ایک یہ کہ ارکان سینٹ کے انتخاب کا طریقہ کار کیا ہوگا اور دوسرا کیا یہ انتخابات مقررہ وقت پر ہونگے۔ اس وقت سینٹ کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ ن ہے جس کے ارکان کی تعداد 30 ہے جن میں سے 17 سینیٹرز مارچ میں ریٹائر ہو جائینگے۔ باقی پیپلزپارٹی کے 21 میں سے آٹھ پی ٹی آئی کے‘ 14 میں سے 7 بلوچستان نیشنل پارٹی کے‘ 9 میں سے 3 آزاد‘ 7 ارکان میں سے چار ایم کیو ایم کے‘ 5 میں سے چار پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے‘ 4 میں سے 2 جمعیت علمائے اسلام کے‘ چار میں سے دو جماعت اسلامی کے‘ دو میں سے ایک جبکہ عوامی نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی کا ایک ایک رکن ریٹائر ہو جائیگا۔ پی ٹی آئی کے ایوان بالا میں سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آنے کے امکانات ہیں۔ جبکہ پیپلزپارٹی دوسری‘ ن لیگ تیسری جماعت بن جائیگی۔ خفیہ رائے دہی کا مسئلہ سپریم کورٹ میں زیرسماعت ہے۔ حکومت نے موقف اختیار کیا ہے کہ قانونی طور پر الیکشن شو آف ہینڈ یا اوپن بیلٹ کے ذریعے ہو سکتا ہے۔ عمران خان این آر او کی بات کئی بار دہرا چکے ہیں کہ کرسی چھوڑنی پڑی چھوڑ دوں گا‘ مگر این آر او نہیں دوں گا۔ نہ تو عمران خان ڈکٹیٹر ہیں اور نہ ہی عدلیہ انکے ماتحت ہے۔ سیاسی مخالفین اور حکومت موجودہ حالات میں محض این آر او کی ٹرم استعمال کر رہی ہے۔ جبکہ حقیقت میں اسکی آئین میں کوئی گنجائش موجود نہیں۔ وزیراعظم نے کہا اپوزیشن نیب میں ترامیم کرانا چاہتی ہے جس کے بعد نیب غیرفعال ہو جائے اور اپوزیشن کیخلاف کیسز ختم ہو جائیں گے۔ اپوزیشن اپنے خلاف کیسز میں جو رعایت مانگ رہی ہے‘ اس کو این آر او کا نام دیا جا سکتا ہے۔ پرویز مشرف نے 5 اکتوبر 2007ء کو قومی مفاہمتی آرڈی ننس جاری کیا تھا جسے این آر او کہا جاتا ہے۔