ایک واقعہ بیان کرکے میں دل پر پتھر رکھ کر کالموں کا یہ سلسلہ ختم کرنے لگا ہوں ۔
نواز شریف کا زمانہ تھا ،میرا اکثر اسلام آباد آنا جانا رہتا۔
ایک مرتبہ میں اسلام آباد سے واپس آرہا تھا، حاجی صاحب نے کہا کہ میں بھی آپ کے ساتھ چلوں گا ۔ میں نے انہیں ساتھ بٹھا لیا ۔ لاہور میں موٹر وے سے اتر کر میں نے ان سے پوچھا کہ کہاں پہنچائوں، انہوں نے کہا ابھی تو آپ اپنے گھر ہی چلیں ۔ گھر آئے تو انہوں نے اوپر نیچے تمام کمروں کا جائزہ لیا اور پھر ایک کمرے کی طرف اشارہ کرکے کہنے لگے کہ میں یہاں ٹھہروں گا ۔
بس آپ مجھے ایک بیڈ دے دیں اور ایک فالتو موبائل ، میں سمجھ گیا دال میں کچھ کالا ہے بہر حال میں نے کوئی ہچر مچر نہیں کی ،ایک چھوڑ میں نے دو فون ان کے حوالے کردیے ، میں دن کو اپنے دفتر جاکر نوکری کرتا اور وہ دن بھر سوتے اور شام کا اندھیرا پھیلنے پر مجھے کبھی کسی شہر کبھی کسی شہر لے جانے کی فرمائش کرتے ،سرگودھا میں ایک ایڈیشنل جج تھے ان کے یہاں وہ کئی مرتبہ گئے اور واپس آئے یہ سارا سفر رات ہی کو طے ہوتا ۔ایک بار انہوں نے سرگودھا سے نکلنے کے بعد کہا کہ اب آپ اسلام آباد کا رخ کریں ۔
اسلام آباد پہنچ کر انہوں نے گاڑی ایئر پورٹ کی طرف موڑنے کا کہا میں سمجھ گیا کہ وہ تاجی کھوکھر کے ڈیرے پر جانا چاہتے ہیں ،یہ جولائی یا اگست کا مہینہ تھا سخت گرمی تھی وہ تو تاجی کھوکھر سے الگ ہو کر باتیں کرنے لگے اور میں کھلے آسمان کے تلے ایک چار پائی پر لیٹ گیا ۔ کوئی دو گھنٹے بعد رات کے آخری پہر انہوں نے واپس لاہور جانے کے لیے کہا وہ تو میرے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ کر جلد ہی خڑاٹے بھرنے لگے مگر میرے لیے اپنی آنکھیں کھلی رکھنا مشکل ہو گیا ۔
میں موٹر وے پر جگہ جگہ رک کر پانی کی بڑی بوتلیں لیتا اور اپنے سر پر ڈال کر اپنے آپ کو تازہ دم کرنے کی کوشش کرتا ۔ حاجی صاحب نے میری یہ حالت دیکھ کر غنودگی کے عالم میں کہا کہ آپ کہیں رک کر چنے یا ریوڑیاں لے لیں اور وہ منہ میں رکھ کر چباتے رہیں۔ اس طرح آپ کو نیند نہیں آئے گی اور یہ جو آپ بار بار گاڑی کو جھٹکے لگاتے ہیں اور میری نیند میں خلل ڈالتے ہیں تو میری ترکیب پر عمل کریں یہ ترکیب کارگر ثابت ہوئی میں باقی سفر میں چنے چباتا رہا اور ایک سو بیس کی رفتار سے گاڑی چلاتا رہا، میری کوشش یہ تھی کہ اپنے مسافر کو بحفاظت اپنے گھر لے جائوں ،اس کٹھن سفر کے بعد میں ساری کہانی سمجھ گیا کہ حاجی صاحب میرے یہاں کیوں مقیم ہیں بلکہ پناہ گزین ہیں ۔
میں نے ان سے اصل وجہ تو پوچھی نہیں مگر میرا خیال ہے کہ میاں نواز شریف کے بنائے ہوئے احتساب سیل کے سربراہ سیف الرحمن ان کو پکڑ کر حوالہ زنداں کرنے پر تلے بیٹھے تھے۔حاجی صاحب بھی بڑے کائیاں آدمی تھے اور انہوں نے سیف الرحمن کو وہ غچہ دیا جو اس کے گمان میں بھی نہ تھا وہ تین چار ماہ تک اپنے گھر سے بھی باہر رہے۔تمام اہم لوگوں سے ان کی ملاقاتیں بھی جاری رہیں ۔ اور سیف الرحمن ان کی گرد کو بھی نہ پا سکا۔
ایک دن کہنے لگے چلیں لندن سے چل کر اخبار نکالتے ہیں میں بڑا خوش ہوا کہ یہ تو ومیرے دل کی آرزو پوری ہو رہی ہے ۔انہوں نے کہا کہ برطانوی سفارت خانے سے پوچھو کہ کتنی سرمایہ کاری پر وہ ورک ویزا دے دیں گے۔
میں نے اپنے ذرائع سے پوچھ کر بتایا کہ دو لاکھ پائونڈ آپ انویسٹ کریں تو میاں بیوی اور نا بالغ بچے لندن میں مستقل قیام کے اہل ہوں گے ۔ اب میں کچھ کچھ سمجھ رہا تھا کہ وہ تو ملک سے فرار ہونے کی کوشش میں ہیں ،مجھ سے کہنے لگے میں نے اپنی اور آپ کی تصاویر ایف آئی اے کے امیگریشن حکام کو بار بار دکھائی ہیں اور ان کا کہنا یہ ہے کہ آپ دونوں کی شکلیں ملتی ہیں ۔
میں نے کہا تو پھر کیا ہو ا۔ شکلیں ملتی ہیں تو اس میں حرج کیا ہے ۔انہوں نے کہا نہیں آپ مجھے اپنا پاسپورٹ دیں میں اس پر لندن کا سفر کرنا چاہتا ہوں میں اپنے کمرے سے جا کر پاسپورٹ لے آیا انہوں نے بار بار اس کے اوراق پلٹے اور کہنے لگے کہ ویزا تو لگا نہیں ہوا ، میں نے کہا آپ نے مجھ سے پاسپورٹ مانگا تھا وہ میں نے آپ کو دے دیا ویزے کا آپ نے پوچھا نہیں تھا ورنہ میں آپ کو بتا دیتا ۔ حاجی صاحب کا منہ لٹک گیا ۔
آج میں سوچتا ہوں کہ اگر پاسپورٹ پر ویزا لگا ہوتا تو حاجی صاحب لندن جا چکے ہوتے۔نواز شریف کے ساتھ مل بیٹھ کر آکسفورڈ سٹریٹ میں پیزا کھا رہے ہوتے اور میں ایف آئی اے کے کسی خفیہ تاریک سیل میںگل سڑ رہا ہوتا۔
افغانیوں نے اپنے مہمان اوسامہ کی خاطر بیس سال تک قربانیاں دیں ، میں اگر اپنے بھائی دوست اور مہمان کی خاطر چند برس جیل بھگت لیتا تو یہ کون سی بڑی بات ہوتی ۔
بہرحال حاجی صاحب اپنے ایک پلان سے مایوس ہو گئے اور انہوں نے گرفتاری دے دی۔
٭…٭…٭