ترقی پذیر ممالک کو صحت کے شعبے میں سنگین چیلنجز کا سامنا ہے۔ امیر تو علاج کروانے کیلئے مہنگے سے مہنگا ہسپتال اور اچھے سے اچھا ڈاکٹر تلاش کرتے ہیں چاہے کتنے ہی پیسے کیوںنہ خرچ کرنا پڑیں۔ بلکہ امیر لوگ تو جتنے پیسے اپنا وہم دُور کرانے کے لئے ڈاکٹروں اور لیبارٹریوں کو دے دیتے ہیں اتنے میں غریب کا آپریشن ہو سکتا ہے۔ ہمارے ہاں عام لوگ زیادہ تر سرکاری ہسپتالوں کے آئوٹ ڈورز میں جاتے ہیں یا پھر ٹرسٹ اور فلاحی بنیادوں پر قائم ہسپتالوں کا رُخ کرتے ہیں‘ وہاں ان کا دال دلیا ہو جاتا ہے۔ مریضوں کی بڑی تعداد البتہ علاج معالجے کیلئے طویل اور صبر آزما انتظار سے گزرتی ہے۔ گزشتہ دنوں ترجمان وزیراعلیٰ پنجاب حسان خاور کے ساتھ سینئر کالم نگاروں کی ایک نشست میں صحت کا موضوع زیربحث آیا تو نیا پاکستان صحت کارڈ کا ذکر بھی ہوا ۔حکومت کے احساس پروگرام‘ راشن کارڈ اور کسانوں کیلئے کئے گئے اقدامات پر بھی بات ہوئی۔ حسان خاور سیاسی طوفان کی تلاطم خیز موجوں کو اپنے شائستہ اور مہذب انداز سے پرسکون لہروں میں تبدیل کرنے کے فن میں ماہر ہیں۔ بلا شبہ وہ موجودہ حکومت کی بہترین چوائس ہیں اور ان کے آنے کے بعد پنجاب میں تعلقات عامہ کا شعبہ خاصا مضبوط ہوا ہے۔ اس محفل میں بھی وہ تند و تیز سوالات کا مسکرا کر جواب دیتے رہے۔ کچھ صحافیوں نے نکتہ اٹھایا کہ اس میں آئوٹ ڈور علاج کی سہولت میسر نہیں ۔ بحث کافی دیر تک چلتی رہی لیکن کوئی بھی ٹھوس دلیل ایسی سامنے نہیں آئی جس سے یہ کہا جائے کہ یہ قدم صرف ’’کمپنی کی مشہوری‘‘ یا پھر کسی کو نوازنے کیلئے اٹھایا گیا ہے۔ حسان خاور نے بتایا کہ وزیراعظم عمران خان پروگرام کا باقاعدہ افتتاح کر چکے ہیں اور وزیراعلیٰ عثمان بزدار اس پر عمل درآمد کیلئے ہر ممکن اقدامات کر رہے ہیں۔پروگرام کے ذریعے پنجاب کے تین کروڑ خاندان علاج کی مفت سہولیات حاصل کر سکیں گے ۔ان کے مطابق یہ پروگرام عوام میں مقبول ہو رہا ہے جبکہ بہت سے مریض اس کے ذریعے شفایاب بھی ہو چکے ہیں۔
اس پروگرام میں کچھ باتیں منفرد ہیں۔ پہلی یہ کہ صحت کے حوالے سے اگر آپ کوئی انشورنس پالیسی لیتے ہیں تو آپ کو گھر کے ہر فرد اور اس کی عمر کے مطابق ماہانہ یا سالانہ انشورنس کمپنی کو ادائیگی کرنا ہوتی ہے ؛تاہم اس پروگرام میں ایسی کوئی شرط یا فیس نہیں رکھی گئی بلکہ صحت پاکستان کا کارڈ بھی مفت ہی ملتا ہے۔ رجسٹریشن ایس ایم ایس اور موبائل ایپ کے ذریعے گھر بیٹھے ہو سکتی ہے اور اگر آپ اہل ہیں اور جب تک صحت کارڈ بن کر نہیں آپ کو نہیں مل جاتا‘ تب تک آپ اپنا شناختی کارڈ ہی بطور صحت کارڈ استعمال کر سکتے ہیں۔ دوسری اہم سہولت نجی ہسپتال ہیں جو فہرست میں شامل ہیں۔ ان میں تیسرے درجے کے نہیں بلکہ پوش علاقوں کے مہنگے ترین ہسپتال بھی شامل ہیں جہاں مریض داخل ہو کر علاج کروا سکتے ہیں۔پھر علاج معالجے کی حد فی خاندان سالانہ دس لاکھ روپے تک رکھی گئی ہے جو خاصی معقول ہے۔ اب ہم ان چیزوں کی طرف آتے ہیں جہاں مسائل ہو سکتے ہیں اور لوگ شکایات کر سکتے ہیں کہ ان کا اندراج نہیں ہو رہا یا انہیں بتائی گئی علاج کی سہولت نہیں مل رہی۔ سب سے پہلے یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ ہمیں اپنا شناختی کارڈ بنواتے وقت تمام معلومات درست اور مکمل لکھوانی چاہئیں۔ اگر ہماری درج کروائی گئی معلومات ہی غلط ہوں گی تو سسٹم آگے نہیں چلے گا چاہے صحت کارڈ بنوانا ہو یا پاسپورٹ یا کچھ اور۔ مثلاً یہ کہ اگر آپ کی ایک بیوی اور دو تین یا زیادہ بچے ہیںتو یہ سب لوگ آپ کے شناختی کارڈ سے منسلک معلومات میں درج ہونے چاہئیں۔ کئی لوگوں کی بیگم یا بیگمات نادرا کے ریکارڈ میں درج نہیں ہوتیں اور شہریوں کی بڑی تعداد ایسی ہے جنہوں نے اپنے اٹھارہ سال سے کم عمر کے بچوں کے ب فارم بھی نہیں بنوائے۔ اسی طرح دیگر کوائف مثلاً شادی‘ پیدائش‘وفات اور مستقل و موجودہ پتہ وغیرہ جیسی معلومات کا اندراج بھی زیادہ تر نامکمل یا غلط کرایا گیا ہوتا ہے۔ کارڈ کے حصول کیلئے ضروری ہے کہ اگر کوئی بیوہ ہے تو بیوہ خاتون اور اس کے غیر شادی شدہ بچے خاندان تصور ہوں گے۔ طلاق یافتہ ہونے کی صورت میں مطلقہ خاتون اور اس کے غیر شادی شدہ بچے خاندان تصور ہوں گے جس کی سربراہ مطلقہ خاتون ہو گی۔ صورت حال ایسی بھی ہو سکتی ہے کہ جس میں مرد طلاق یافتہ ہے تو اس کے غیر شادی شدہ بچے ‘نادرا کے مطابق جو باپ کے ساتھ درج ہیں‘ تو وہ ایک خاندان تصور ہوں گے اور سربراہ مطلقہ مرد ہو گا۔ ایک سے زائد شادیوں کی صورت میں ایک مرد کی تمام بیویاں اور ان کے غیر شادی شدہ بچے ایک خاندان تصور ہوں گے ۔ یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ یہ سارا سسٹم نادرا کے ساتھ منسلک ہے جس کے سافٹ ویئر میں پالیسیاں اور اصول واضح کئے گئے ہیں ‘ ان سے انحراف کی صورت میں مطلوبہ ایکٹیویٹی مکمل نہیں ہوگی۔نیا پاکستان صحت کارڈ ایپ پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ نے محکمہ صحت کے لئے بنائی ہے اور انتہائی عمدہ ایپ ہے جس پر گھر بیٹھے کارڈ کیلئے رجسٹریشن کروائی جا سکتی ہے۔
صحت کارڈ میں آئوٹ ڈور کی سہولت ہونی چاہیے لیکن وہ شاید پہلے مرحلے میں نہیں ہے یا پھر اس لئے نہیں رکھی گئی کہ لوگ جعلی کلیم حاصل کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ویسے آئوٹ ڈور‘ دانتوں اور پلاسٹک سرجری تو عام انشورنس کمپنیاں دنیا میں شاید ہی کور کرتی ہوں۔ پاکستان میں دل کی بیماریاں اور مریض عام ہیں اس لئے امراض قلب کو اس پروگرام میں کور کیا گیا ہے۔ اسی طرح حمل‘زچگی‘گردوں کی بیماریاں اور ایسی دائمی بیماریوں کا علاج جن میں ہسپتال میں داخلہ ضروری ہو‘ وہ بھی شامل ہیں۔سڑکوں پر ٹریفک حادثات بالخصوص موٹرسائیکلوں کے حادثات کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ گیارہ بائیس کی ایمبولینس کی آوازیں ہر روز سنائی دیتی رہتی ہیں۔ اس پروگرام میںحادثاتی چوٹوں کا علاج بھی شامل ہے۔ اسی طرح جو موبائل ایپ بنائی گئی ہے اس میں علاج یا دیگر مسائل کی شکایات بھی درج کروائی جا سکتی ہیں اور منتخب سرکاری و نجی ہسپتالوں کی فہرست بھی دیکھی جا سکتی ہے۔
یہ پروگرام کتنا کامیاب ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا کیونکہ ماضی کی حکومت نے بھی مختلف ناموں کے ساتھ اسے شروع کیا تھا ۔ تب غالباً علاج کے لئے رقم کی حد چار لاکھ تھی لیکن اب یہ دس لاکھ کر دی گئی ہے۔نجی ہسپتالوں کو شامل کرنے کا فائدہ عوام کو بھی ہو گا وگرنہ سرکاری ہسپتال تو پہلے ہی ہائوس فل رہتے ہیں۔پھر یہ کہ پینل پر ہسپتالوں کی تعداد بڑھنے سے عوام کیلئے آپشنز بڑھ جائیں گی اور وہ دوسرے اضلاع میں طویل سفر کرکے جانے کی بجائے اپنے ہی شہر میں علاج کروا سکیں گے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اب سرکاری ہسپتالوں کی حالت پر بھی توجہ دے کیونکہ ہسپتال میں داخلہ اگر مریضوں کے لئے کارڈ کے ذریعے آسان بنایا گیا ہے تو لوگوں کی ہسپتال آمد کی شرح میں بھی بہت زیادہ تیزی کے ساتھ اضافہ ہو گا۔ اگر ہسپتالوں کی سی ٹی سکین‘ ایکسرے اور دیگر مشینیں ہی خراب پڑی ہوں گی‘ اگر مطلوبہ تعداد میں بیڈز‘ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل سٹاف ہی دستیاب نہ ہو گا اور اگر آپریشنز کے لئے لوازمات اور ادویات ہی میسر نہ ہوں گی تو پھر عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یہ بات البتہ طے ہے اگر اس پروگرام پر اس کی روح کے مطابق عمل کیا گیا اور عوام مطمئن ہو گئے تو یہ کارڈ حکومت کیلئے تُرپ کا پتہ ثابت ہو گا اور حکومت کو آئندہ انتخابات میں جتوانے میں کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے۔
قومی صحت کارڈ ‘ تُرپ کا پتہ اور حسان خاور
Jan 19, 2022