جمہوریت صرف ہم سے ہے!!!!!


اسمبلیاں ٹوٹ رہی ہیں لیکن جمہوریت مضبوط ہو رہی ہے۔ پاکستان میں میں ہر سیاسی جماعت اور ہر سیاسی جماعت کا سربراہ خود کو نظام سے بڑا ہی سمجھتا رہا ہے اور آج بھی خود کو نظام سے بالاتر اور مضبوط ہی سمجھتا ہے۔ مثال کوئی ایک نہیں ہے بلکہ ہماری سیاسی تاریخ تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ یہاں کوئی بھی شخص یا کوئی  بھی سیاسی جماعت نظام کی مضبوطی کے لیے کام کرنے کو تیار نہیں ہے۔ ہر شخص یا ہر  جماعت خواہ صوبے کی سطح پر ہے یا قومی سطح کی سیاسی جماعت ہے سب جگہ یہی سوچ پائی جاتی ہے کہ ہم ہی تو ہیں نظام مضبوط ہو سکتا ہے، ہماری موجودگی سے ہی جمہوری نظام مستحکم ہے اگر ہم اقتدار کا حصہ ہیں تو ہی حقیقی جمہوریت قائم ہوسکتی ہے اگر ہمیں اقتدار میں حصہ نہیں ملتا تو پھر نہ جمہوریت ہے نہ جمہوری رویے ہیں نہ ملک میں سیاسی استحکام ہو سکتا ہے نہ ہم معاشی استحکام کے لیے کام کرسکتے ہیں نہ ہم لوگوں کے مسائل کو کم کرنے کے لیے کوشش کر سکتے ہیں نہ ہم  ملک کے مسائل کو حل کرنے کے لیے وقت صرف کر سکتے ہیں نہ ہم دنیا کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر رکھنے کے لئے غیر ضروری بیانات سے پرہیز کر سکتے ہیں۔ جمہوریت صرف اس وقت جب ہم حکومت میں ہوں گے۔ یہ بنیادی طور پر جمہوریت کا رونا نہیں رویا جاتا ہے یہ معاشی استحکام کا رونا نہیں رہا جاتا بلکہ یہ اقتدار سے دوری کا رونا رویا جاتا ہے یہ عوام کے مسائل کو بیان نہیں کیا جاتا بلکہ اقتدار سے دوری کا غم ہلکا کیا جاتا ہے۔ کبھی ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ کوئی سیاسی جماعت اقتدار میں ہو اور اتنا ہی درد عوام کے لئے رکھے جتنا اقتدار سے باہر ہونے کے بعد محسوس کیا جاتا تھا۔ پاکستان میں ایسی مثالیں کم ہی ملتی ہیں ایک وقت میں ایک حکمران یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان میں ٹماٹروں کی قیمت کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے وہ یہ کہتا ہے کہ میں صرف اس لئے تو نہیں آیا کہ ٹماٹروں کی قیمتیں دیکھتا رہوں اور چند ماہ بعد وہ یہ کہتا ہے کہ دیکھیں مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے آج تو کوئی کیمرے لے کر باہر نہیں نکلتا اور لوگوں سے نہیں پوچھ رہا کہ زندگی گذارنے کی بنیادی اشیاء کی قیمتوں میں کتنا اضافہ ہو چکا ہے۔ یہ سب تماشے عوام کے نام پر ہوتے ہیں اور ووٹرز ہمیشہ ان سیاسی اداکاروں کے ہاتھوں کھلونا بنتے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت تین سال آٹھ مہینے تک رہی اور اس دوران پاکستان کے بہی خواہ ہوں نے ہر ممکن کوشش کی کہ ملک کے بنیادی مسائل حل کیے جائیں اور ترقی کا ایک ایسا سفر شروع ہو کے عام آدمی کی زندگی میں آسانی پیدا ہو سکے، کرپشن ختم نہ ہو سکے تو وہ اس حد تک ضرور آ جائے کہ اس سے بڑے پیمانے پر نقصان نہ ہو۔ ایک ایسی جماعت 2018 کے عام انتخابات سے پہلے جس کا جنوبی پنجاب میں کوئی وجود نہیں تھا وہ وفاقی حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی،ایک ایسی سیاسی جماعت جس کا بلوچستان میں کوئی نام لینے والا نہیں تھا وہ حکومت میں آئی ایک ایسی جماعت سندھ میں جس کی بہت زیادہ پذیرائی نہیں تھی وہ حکومت میں آئی، عمران خان کو لگ بھگ تین سال سے مکمل سپورٹ ملی لیکن اس دوران یقینی طور پر ناکام رہے. اب وہ جن ووٹرز نے انہیں پنجاب اسمبلی میں خیبر پختونخوا اسمبلی میں اور سب سے بڑھ کر قومی اسمبلی میں بھیجا تھا وہ سب کے سب ایک مرتبہ پھر اپنے امیدواروں کی تلاش میں ہیں۔ کیا یہ جمہوریت کا قتل عام نہیں ایک دن وہ قومی اسمبلی سے نکلتے ہیں پھر وہ پنجاب اسمبلی سے نکلتے ہیں اور پھر وہ خیبر پختونخواہ اسمبلی سے بھی نکل جاتے ہیں۔ قومی اسمبلی میں استعفے جمع کرائے گئے لگ بھگ ڈیڑھ سو افراد کئی مہینوں تک گھر بیٹھے بیانات جاری کرتے رہے لیکن عوام کی خدمت کے کسی منصوبے پر کام نہ کر سکے۔ کیا وقت کا ضیاع نہیں ہے۔ کیا لاکھوں ووٹ اس لیے کاسٹ کیے گئے کہ اسمبلیوں میں آنا جانا لگائے رکھیں۔ خود کو جمہوریت سمجھتے رہیں اور  جمہوریت کے نام پر لڑتے جھگڑتے رہیں۔ سب یہی سمجھتے ہیں کہ صرف وہی جمہوریت ہیں۔ 
اب دونوں صوبائی اسمبلیوں کے تحلیل ہونے اور اس دوران مختلف مراحل سے گزرنے والے تمام افراد کی ساری کی ساری توجہ صرف اور صرف سیاسی انتشار اور عدم استحکام پر ہے۔ قومی اسمبلی کے وہ اراکین جو مراعات سے مستفید ہوتے رہے لیکن انہوں نے کوئی تعمیری کام نہیں کیا لیکن اپنے طرز سیاست سے ملک کو نقصان دل کھول کر پہنچایا ہے۔ جب پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت تھی لوگ انہیں بددعائیں دیتے تھے آج انہیں برا بھلا کہا جا رہا ہے۔ دو ہزار انیس میں زندگی سے تنگ لوگ پی ٹی آئی کے وزراء کو بد دعائیں دیتے تھے آج پی ڈی ایم والوں کے لیے جھولیاں اٹھائی جا رہی ہیں۔ مجھے ذاتی حیثیت میں یہ اطمینان ضرور ہے کہ دو ہزار انیس کے آخر میں اعلانیہ حکومت کو آئینہ دکھایا اور حکومت وقت کو بتایا کہ ایسے آگے نہیں بڑھا جا سکتا میرے پاس سرکاری عہدہ تھا لیکن میں نے عہدے سے چمٹے رہنے کی بجائے عام آدمی کی آواز بننا پسند کیا۔ اس کے جواب میں حکومتی حلقوں اور اس وقت کے وزیراعظم تک مجھے ناپسندیدہ ضرور قرار دیا گیا لیکن میرے لیے اپنا ملک اور اس کے لوگ زیادہ اہم تھے میں نے ملک کی بہتری اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے وہ راستہ اختیار کیا جو حقیقی معنوں میں سیاست دانوں کا ہونا چاہیے۔ عہدوں سے چمٹے رہنا بے معنی ہے اگر عوام کی خدمت نہ کی جائے، عہدوں سے چمٹے رہنے کا کوئی جواز نہیں اگر عام آدمی کی زندگی آسان نہ بنائی جا سکے، عہدوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے اگر ووٹرز کے بنیادی مسائل کو نظر انداز کر کے سیاسی مفادات کے لیے ملک میں انتشار کی سیاست کو ہوا دی جائے۔ آج ہر طرف افراتفری اور بے چینی ہے اور ہر سیاست دان دوسرے کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے نظر آتا ہے لیکن درحقیقت دوسرے پر الزام دھرتے ہوئے وہ خود اس کا بڑا ذمہ دار ہے لیکن جمہوریت کے نام پر سب جائز ہے اگر کچھ نہیں کرنا تو وہ کام ہے، فلاح اور ترقی ہے جس سے ہم کوسوں دور ہیں۔ جمہوریت کا سب سے زیادہ فائدہ منتخب نمائندوں نے اٹھایا ہے اور یہ سب عوامی مسائل کے نام پر الیکشن لڑتے ہوئے اقتدار حاصل کرتے ہیں اور وسائل سے محروم افراد کی احساس محرومی میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ یہ خود ہیں۔

ای پیپر دی نیشن