ہدف بڑا ہو اور حاصل نہ ہورہا ہو تو اسے چھوٹا کر لو۔ مثلاً ہدف جنگل میں جا کر شیر کو مارنا ہے‘ لیکن جنگل جا کر پتہ چلا کہ شیر کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں ہے تو ہدف خرگوش کو مار کر پورا کر لو۔ وہ بھی نہ ملے تو کوئی بات نہیں۔ کوئی پوچھے کہ میاں خالی ہاتھ چلے آئے‘ کس سے ملے تو کہہ دو جنگل میں ہڑتال تھی‘ اس لئے ورنہ تو شیر مار کر ہی لوٹتا۔ نیز مثلاً یہ کہ قالین بیچنا ہے‘ ہدف پچاس ہزار کا ہے‘ اتنے کا گاہک نہیں مل رہا تو ہدف کم کر دو۔ پانچ ہزار کا بیچ دو۔ یہ ’’کامیابی کا گر‘‘ ہے اور اس گر کو محاوروں کی دنیا میں بھاگتے چور کی لنگوٹی کا عنوان دیا گیا ہے۔
کامیابی کے اس گر کو جتنی کامیابی سے خان صاحب نے استعمال کیا ہے‘ کسی اور بڑے سے بڑے کامیاب سیاستدان نے نہیں کیا۔ تازہ واردات دیکھ لیجئے۔ ہدف وزیراعظم سے کرسی چھیننے کا تھا۔ معلوم ہوا کہ بہت مشکل ہے تو ہدف چھوٹا کر دیا اورراجہ ریاض کی گدی کے پیچھے پڑ گئے۔ پی ٹی آئی اسمبلی میں آ نہیں رہی تھی۔ راجہ ریاض اور دیگر بیس اکیس ارکان نے جنہیں منحرفین کے نام سے یاد کیا جاتاہے‘ اسمبلی جا کر اپنی پارلیمانی پارٹی بنا لی۔ راجہ ریاض نے اس پارٹی کی چیئرمین شپ کے ساتھ ساتھ اپوزیشن لیڈر ان دی ہائوس کی گدی بھی سنبھال لی۔ خان صاحب نے سوچا‘ زیادہ ارکان لیکر پارلیمنٹ واپس چلو‘ راجہ ریاض سے گدی چھینو اور اس پر قبضہ کر لو۔
برا ہو سپیکر کا کہ انہوں نے اکٹھے 35 استعفے منظور کر کے یہ ہدف ہی غائب کر دیا۔
…………
آگے بڑھنے سے متعلق اس نغمہ مسرت کا ذکر ضروری ہے جو پی ٹی آئی کے احباب خان صاحب کے ہر معاملے کو ’’ٹرمپ کارڈ‘‘ کہہ کر انہیں داد دیتے ہیں۔ خان صاحب ایک قدم آگے بڑھے۔ غل مچا‘ دیکھا کیا ٹرمپ کارڈ کھیلا۔ اب آئے گا مزا۔ خان صاحب ایک قدم پیچھے ہو گئے تو پھر وہی نغمہ سرائی۔ دیکھا کیا ٹرمپ کارڈ کھیلا۔ اب آئے گا مزا۔
خان صاحب نے ایوان سے باہر ہونے یعنی استعفوں کا فیصلہ کیا تو سب نے وہی کورس گایا کہ خان صاحب نے ماسٹر کارڈ کھیل دیا۔ حکومت کے ہاتھ پائوں پھول گئے۔ اب آئے گا مزا۔ تین روز پہلے خان صاحب نے استعفوں کے بجائے ایوان میں واپس جانے کا فیصلہ کیا تو وہی کورس پھر سے بجنے لگا کہ دیکھا‘ خان صاحب نے ماسٹر کارڈ کھیل دیا۔ حکومت کے ہوش اڑا دیئے۔ اب آئے گا مزا۔
خان صاحب کے ماسٹر کارڈ پر سپیکر نے ’’لارڈ گارڈ‘‘ کھیل دیا۔ 35 ارکان کی چھٹی کرا دی۔ اب آئے گا مزا‘ ابھی تک کسی نے نہیں کہا البتہ فواد چودھری نے اعلان کیا ہے کہ ان سب سیٹوں پر دو ماہ کے اندر اندر ہونے والے ضمنی انتخابات میں خود عمران خان لڑیں گے۔
یہ کون سا کارڈ ہوا؟۔ پچھلی بارخان صاحب نے جن سیٹوں پر الیکشن لڑا اور سات جیتی لیں‘ لیگ اور پی پی کے ذرائع کہتے ہیں بلکہ بعض تو کھلے عام کہتے ہیں کہ باجوہ صاحب نے رات گئے کام دکھایا۔ نتیجے بدل ڈالے اور خان صاحب کو جتوا دیا۔ اور اب تو باجوہ صاحب رہے نہیں۔ خیر اس ’’الزام‘‘ کو چھوڑیں‘ مان لیں خان صاحب یہ ساری 35 کی 35 سیٹیں جیت جاتے ہیں تو رزلٹ کیا نکلے گا۔ ان کے پاس پہلے ہی آٹھ سیٹیں ہیں‘ ایک ان کی اپنی پہلے والی‘ سات جو گزشتہ بار جیتیں‘ کل ملا کر 43 سیٹیں ہو جائیں‘ ہم 43 سیٹیں اور ایم این اے صرف ایک‘ 42 سیٹیںپھر بھی خالی رہیں گی۔ اگر خالی کر دیں تو پھر ضمنی انتخابات ہونگے۔ راجہ ریاض کی گدی تو پھر بھی جوں کی توں محفوظ رہے گی۔
…………
بہرحال‘ یہ 35 کا ہندسہ بھی خوب ہے۔ لوگ باگ اس ’’بیانیے‘‘ کا تذکرہ کر رہے ہیں جو 2013ء کے انتخابات میں شکست کے بعد خان صاحب نے 35 پنکچرز کے عنوان سے سنایا اور چلایا تھا۔ دو سال اس کی دھوم رہی‘ اس پر کئی مہینوں کا دھرنا بھی ہوا۔ وہی دھرنا جس کے بارے میں اس وقت کے’’اوپر‘‘ والوں کا حکم تھا کہ خالی کرسیاں مت دکھائو ۔ یہ بتائو کہ اس میں دس لاکھ ہیں۔ تحقیقات ہوئی‘ کوئی پنکچرثابت نہ ہوا۔ خان صاحب کا مطلب یہ تھا کہ 35 سیٹیوں پر دھاندلی ہوئی۔ ان پر پی ٹی آئی جیتی تھی لیکن مخالفوں کوجتوا دیا گیا۔ خان صاحب نے ’’سیمپل‘‘ کے طورپر چار سیٹوں کا نام لیا کہ یہاں دوبارہ انتخابات کرا کے دیکھ لو۔ وہاں دیگر وجوہات کی بنیاد پر ضمنی انتخابات ہوئے‘ خان صاحب چاروں ہار گئے۔ بات دب گئی۔ بعد میں کسی نے پوچھا‘ خان صاحب ان35 پنکچرز کیا کیا بنا۔ خان صاحب نے جواب دیا‘ ارے وہ 35 پنکچر ؟ بھئی وہ تو سیاسی بیان تھا۔ اللہ اللہ خیر سلا۔ یعنی محض سٹنٹ تھا۔ اور محض سٹنٹ پر چار مہینے کا دھرنا دے ڈالا۔
…………
خان صاحب کی ’’تقلیل ہدف‘‘ کی یہ پالیسی طبی کہانی ہے۔ حکومت میں آنے کے بعد خان صاحب کا ہدف دس سال کی حکمرانی تھا۔ اسے ’’دس سالہ منصوبے‘‘ کا نام بھی دیا گیا۔ پھرخان صاحب نے ہدف بڑھا لیا۔ اگلا الیکشن ای وی میشنوں کے ذریعے دوتہائی اکثریت سے جیتیں گے۔ آئین میں ترمیم کرکے صدارتی نظام لائیں گے۔ مخالفوں کا ہر طرح سے بشمول جسمانی صفایا کریں گے اور تاحیات ’’بادشاہی‘‘ فرمائیںگے۔
لیکن تیسرے سال ہی تقلیل ہدف کرنا پڑ گئی۔ یہ کہ پانچ سال کی مدت پوری کریں گے۔ عدم اعتماد کی خبریں آئیں تو ہدف یہ ہو گیا کہ اس کی نوبت ہی نہیں آ نے دیں گے۔ وہ آگئی تو پھر ہدف تھا کہ اسے ناکام بنائیں گے۔ دیکھا کہ ناکام بنانا بس میں نہیں تو ہدف بدل کر یہ فرما دیا کہ تحریک پیش ہی نہیں ہونے دیں گے۔ چنانچہ ڈپٹی سپیکر نے اسے غیرملکی سازش قرار دیکر مسترد کر دیا۔ ووٹنگ کی نوبت ہی نہ آنے دی گئی۔ پھر رات کو ایسے حالات ہوئے کہ تحریک پیش بھی ہوئی‘ پاس بھی ہو گئی اور گلفام سے چھن گئی سبز پری ۔ ایوان حکومت سے فارغ خطی کے بعد ہدف 20 لاکھ انسانوں‘ کا سمندر اسلام آباد لانا ٹھہرا جسے بعدازاں کم کرکے ایک لاکھ‘ بعد میں 50 ہزار کردیا گیا۔ جب یہ سمندر اپنی منزل پر پہنچا تو ’’سمندر‘‘ کی نفری 5ہزار سے کچھ زیادہ ہی تھی۔ پھر کئی مہینوں بعد ایک تاریخی لانگ مارچ شروع کیا۔ ہدف دس لاکھ‘ پھر دو لاکھ رکھ گیا۔ لانگ مارچ سے شروع ہوا تو دن بدن لاغر سے لاغر ہوتا گیا۔ ناچار وزیر آباد والا ’’ٹرمپ کارڈ‘‘ کھولنا پڑا۔ جان بچی سو لاکھوں پائے۔
پھر ایک ہدف باجوہ صاحب کی توسیع کا مقرر کیا۔ دیکھا کہ مشکل ہے تو نیا ہدف یہ تھا کہ ’’حافظ‘‘ صاحب کو نہیں آنے دینا۔ وہ بھی آگئے تو … خیر یہ کہانی لمبی ہے۔ خلاصہ اس اختتامی مرحلے ہی کو سمجھ لیجئے جس میں ہدف راجہ ریاض کی گدی ہتھیانا طے کیا گیا۔
آسان ہدف تھا‘ مل ہی جاتا‘ لیکن برا ہو پرویز اشرف کا‘ سارا رنگ بھنگ کر دیا‘ جہاں پھول تھے‘ اب وہاں راکھ ہے۔ سبز پری جانے کہاں اڑ گئی۔
اب اگلے ٹرمپ کارڈ کا انتظار فرمائے اور اس نغمے کا بھی کہ دیکھاخان نے کیسا ماسٹر کارڈ کھیل دیا۔ اب آئے گا مزا۔