ٹیکنوکریسی، ہاورڈ سکاٹ اور پاکستان  

ٹیکنوکریسی، ہاورڈ سکاٹ اور پاکستان  
کالا دائرہ…فیصل اظفر علوی اسلام آباد
faalvi@live.com

 ہاورڈ سکاٹ یکم اپریل 1890 ء کو امریکی ریاست ورجینیا میں پیدا ہوا۔ اس کا بچپن انتہائی پر اسراریت کا حامل تھا اور اس کی ابتدائی تعلیم کے بارے میں بھی کوئی خاص معلومات دستیاب نہیں۔ ہاورڈ کا نام پہلی مرتبہ 1918ء میںپہلی جنگ عظیم کے اختتام سے چند روز قبل نیویارک میں سنا گیا۔ اس وقت تک پیچیدہ، پر اسرار اور طلسماتی شخصیت رکھنے والا یہ نوجوان ایک ماہر انجینئر کے طور پر ابھر رہا تھا۔ بنا استاد اور درسگاہ ، از خود تعلیم کا حصول اس نوجوان کی امتیازی خصوصیات میں سے ایک تھا۔ سکاٹ نے پیشہ وارانہ تعلیم تجربے سے حاصل کی اور دوران ملازمت وہ انجینئرنگ اور سائنس کے اسرار و رموز سے واقفیت حاصل کرتا چلا گیا۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ شخص آنے والے چند دنوں میں ایک نئی اصطلاح متعارف کروانے جا رہا ہے جو عالمی جنگ سے شکست خوردہ انسانیت میں خام خیالی اور امید کا ایک نیا دیپ جلا دے گی۔ مقناطیسی کشش جیسی شخصیت رکھنے والا ہاورڈ سکاٹ سائنس کو ہی سب کچھ مانتا تھا اور سائنسی و تکنیکی کشمکش نے اسے زندگی کو کئی نئے زایوں سے پرکھنے پر مجبور کر دیا ۔6 فٹ 3انچ کے دراز قد سائنسی عشق میں مبتلا سکاٹ نے 1919 ء میں نیو یارک کے سائنسدانوں اور انجینئرز کے ساتھ مل کر ایک ’’ٹیکنیکل اتحاد‘‘ کی بنیاد رکھی۔ جی ہاں یہ وہی ٹیکنیکل اتحاد تھا جو بعد ازاں ٹیکنوکریٹک موومنٹ کے نام سے جانا جانے لگا تھا۔ 
سکاٹ روئے زمین پر سائنس کی حکومت کا قائل تھا ۔ اس کا خیال تھا کہ  جمہوریت نے بہت سے نااہل افراد کو اقتدار تک پہنچا یا،ان نا اہل افراد کے غلط فیصلوں نے سماجی بربادی کو جنم دیا۔وہ سمجھتا  تھا کہ کرہ ارض پر تمام مسائل اور برائیوںکا حل سائنس میں پوشیدہ ہے اور سائنس سے ہم ایک نئی دنیا ترتیب دے سکتے ہیں جس کا انتظام سائنسدانوں، انجینئرز اور ماہرین نے کرنا تھا۔ اس نئی دنیا کے مسائل پر سائنسی اصولوں کا سختی سے اطلاق ناگزیر قرار دیا جانا چاہئے۔جو لوگ اسے جانتے تھے وہ اسے قائل کرنے والے، ذہین اور دور رس نگاہ رکھنے والے کے طور پر بیان کرتے ہیں۔اپنی تحریک میں جان ڈالنے اور اس کی افادیت سے دنیا کو روشناس کروانے کیلئے سکاٹ نے اس بات کی وکالت کی جسے وہ ’ٹوکن‘ کہتا تھا۔ قائل کر دینے کی صلاحیت،مدلل گفتگو اور شعلہ بیانی کے طفیل اس کی تحریک کے بڑے بڑے اجتماعات میں ہزاروں اراکین شامل ہوتے تھے ۔ نتیجتاََسکاٹ کے اس اتحاد میں آہستہ آہستہ ہم خیال لوگوں کی تعداد بڑھتی چلی گئی۔پہلی عالمی جنگ نے ایک وسیع معاشی انحطاط کو جنم دیا تھا جو1929ء میں ایک بڑے معاشی نقصان پر منتج ہوا ، اس واقعے کو’’ 1929 ء کا کریش‘‘کے نام سے یاد رکھا جاتا ہے۔ اس کریش میں دنیا بھر کی مالیاتی منڈیاںبرباد ہو گئیں،تقریباََ آدھی دنیا کی معیشتیں ڈوب گئیں اورکروڑوںلوگ بے روزگار ہو گئے تھے۔اس صورتحال میں ’’ٹیکنیکل اتحاد‘‘ کئی لوگوں کو متاثر کرنے میں کامیاب رہا اور’’ٹیکنیکل اتحاد‘‘ کے یہ  نظریات 1933 میں ٹیکنوکریسی انکارپوریشن میں بدل گئے۔یہ وہی سال ہے جس میں ٹرم ٹیکنوریسی کی ابتداء ہوئی اور اسی سال سے ٹیکنوکریسی انکارپوریشن کو جانا جاتا ہے۔’’ ٹیکنوکریسی کارپوریشن‘‘ شمالی امریکہ میں معیشت، سیاست اور معاشرے کی بنیاد پرست اصلاحات کو فروغ دینے کیلئے ایک تحقیقی اور تعلیمی تنظیم کے طور پر قائم کی گئی تھی۔
 سکاٹ نے اپنے نظریات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ’قیمتوں کے نظام‘ سے چھٹکارا حاصل کرنے کی تجویز پیش کی۔ اس نکتے کو ٹیکنوکریٹس بنیادی طور پر سرمایہ دارانہ نظام کا جوہر قرار دیتے تھے۔سکاٹ کا کہنا تھا کہ ’ صنعتی انقلاب تک معاشی نظام ’قلت‘پر مبنی تھا۔اس کے مطابق چیزیں تیار کرنے اور بنانے میں بہت زیادہ وقت اور محنت درکار ہوتی ہے اور ان کے لیے وسائل بھی کبھی پورے نہیں ہوتے۔ اس محنت اور وقت کو کم کیا جانا چاہئے ۔ ٹیکنالوجی نے دنیا میں کثرت اور بہتات کی ایک نئی دنیا تخلیق کیہے۔ اس دنیا میں مشینیں وہ سب کچھ زیادہ سستے میں بنا سکتی تھیں جو ہر ایک کے لیے ضروری تھا‘۔سکاٹ کے مطابق ’چونکہ معیشت ابھی بھی قیمتوں کے نظام پر مبنی ہے، اس لیے اسے منافع کے لیے قائم کیا گیا تھا، استعمال کے لیے نہیں۔ اس سے بچنے کے لیے، ٹیکنو کریٹک موومنٹ پیسے کو ختم کرنا چاہتی تھی۔ سکاٹ کہتا تھا کہ  ’لالچ، جرم اور مصائب کی اصل جڑ ہے۔‘مصائب پر قابو پانے کیلئے لالچ کو ختم کرنا ہوگا اور جب تک قیمت یعنی کرنسی ہے یہ مصائب بڑھتے چلے جائیں گے۔ وہ اس مسئلے سے نمٹنے کیلئے ’انرجی سرٹیفکیٹ‘ جاری کرنے کا آئیڈیا رکھتا تھا۔اس کے مطابق ان انرجی سرٹیفیکیٹس کی لاگت چیزوں کو پیدا کرنے کے لیے درکار توانائی کے مطابق ہو گی یعنی نہ کم نہ زیادہ۔اس کے مذکورہ خیال سے متاثر ٹیکنوکریٹ تحریک کے ارکان نے دلیل دی تھی کہ اگر آپ سب کو ایک جیسے انرجی سرٹیفکیٹ دیتے ہیں اور ان کی ضروریات کو پورا کرتے ہیں، تو پیسہ جمع کرنے کی خواہش ختم ہو جائے گی اور اس کے ساتھ جرائم کا بھی خاتمہ ہوجائے گا۔
سکاٹ کے مطابق’’ ٹیکناٹو‘‘ ماڈل میں کام صرف 16گھنٹے کرنا پڑے گا اوروہ بھی ہر کسی کو نہیں بلکہ صرف 25سے 45برس کے ماہرین ہی کام کریں گے اور 45 سال کے بعد ریٹائر ہو جائیں گے۔ عمر کی شرائط کو پورا کرنے والے ان ماہرین کے علاوہ کسی کو کام کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی اور باقی تمام لوگوں کو تعلیم، صحت، رہائش، خوراک جیسی دیگر بنیادی ضروریات زندگی ہمہ وقت فراہم کی جائیں گی۔ پیسہ یعنی کرنسی ویسے ہی ختم ہو جائے گی اور متبادل کے طور پر انرجی سرٹیفیکیٹس جاری کئے جائیں گے۔ ہاورڈ سکاٹ کے مطابق اس سب کو عملی جامہ پہنانے کیلئے باقی ہر طرح کا سیاسی نظام لپیٹنا ہوگا۔ سائنسدانوں، ماہرین اور انجینئرز پر مشتمل حکومت ہوگی اور کوئی سیاستدان یا تاجر نہیں ہوگا بلکہ تمام فیصلے سائنسدان ، انجینئرز اور ماہرین ہی کریں گے۔ (جاری ہے)

ای پیپر دی نیشن