آٹے کی سستی بوریوں کے حصول پر متوسط اور سفید پوش طبقے کی اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کیلئے جاری دھکم دھول اور ہاتھا پائی کی جاری جنگ برائے روٹی کے جو مناظر سوشل میڈیا پر دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک میں دکھائے جا رہے ہیں اور ان انتہائی افسوسناک مناظر میں غیرملکی جس طرح تبصرے کر رہے ہیں‘ انہیں دیکھنے اور سننے کے بعد قوم کی بے چارگی اور خط غربت سے نیچے جانے کی دہائیاں دینے والے افراد کی آہ و بکا سے یہ اندازہ لگانا کہ ایٹمی قوت کا اعزاز حاصل کرنیوالی مملکت اسلامی کو معاشی و اقتصادی طور پر آنیوالے دنوں میں مزید کن مسائل سے دوچار ہونا پڑیگا‘ قطعی دشوار نہیں۔
دوسری جانب معاشرے میں پرتعیش طرز زندگی کے بڑھتے رجحان نے دنیا کے ان مالی اداروں کو بھی حیرانی و پریشانی سے دوچار کر رکھا ہے جو پاکستان کی مالی اور معاشی امداد کیلئے قرضے تو جاری کرتے ہیں۔ اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ پاکستان کے آئی ایم ایف سے حاصل کئے اب تک کے تمام قرضے بدستور غیریقینی عمل سے دوچار ہیں اور یہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ جس نے قوم کو مبینہ طور پر آئی ایم ایف اور دیگر مالی اداروں کا غلام بنا رکھا ہے۔ حکومت کے اب تک کئے تمام تر اقدامات کے باوجود مذکورہ اداروں کے وہ اہداف پورے نہیں کئے جا سکے جو قرضہ کی واپسی کیلئے متوقع تھے۔
جنیوا میں ہونیوالی حالیہ ڈونرز کانفرنس میں موسمی تبدیلیوں‘ سیلابی نقصان اور سیلاب سے متاثرین کی بحالی کیلئے کئے گئے عملی اقدامات اور متاثرین کیلئے مزید مالی امداد کیلئے دنیا بھر کے ممالک سے کی گئی اپیل اور برادر اسلامی ملکوں سے خصوصی درخواست پر کامیابی کے گو آثار نمایاں ہوئے ہیں تاہم پاکستان کو توانائی اور معاشی و اقتصادی بحران سے نکلنے کیلئے مزید حکمت عملی تیار کرنا ابھی باقی ہے۔ پاکستان کی مالی مشکلات اور سیلاب سے متاثرین کیلئے برادر مسلم ممالک( جن میں ترکیہ‘ سعودی عرب‘ عرب امارات‘ قطر اور دیگر دوست ممالک میں چین‘ برطانیہ‘ امریکہ شامل ہیں) نے مالی امداد اور مزید قرضے دینے پر اتفاق کیا ہے۔ جنیوا کانفرنس میں گرانٹ اور مزید قرضوں کے حوالے سے بلاشبہ بڑی کامیابی حاصل ہوئی ہے تاہم یہ بات بھی ہرگز بھولنا نہیں چاہیے کہ کانفرنس میں حاضر بیشتر ممالک کے نمائندگان نے یہ قرضے Pledges کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ آسان لفظوں میں یوں کہہ لیجئے کہ دنیا کے ترقی یافتہ اور مالی طور پر مستحکم ممالک اور ادارے جب کسی متاثرہ ملک کی درخواست پر گرانٹ یا قرضہ دیتے ہیں تو یہ قرضے بالعموم وعدے کے زمرے میں آتے ہیں۔ مجموعی طور پر پاکستان کیلئے 7 اعشاریہ 10 ارب ڈالرز کا اعلان کیا گیا ہے جبکہ ہر سات میں سے سیلاب سے متاثرہ ایک شخص اور معاشی نقصان پورا کرنے کا تخمینہ 30 بلین ڈالر لگایا گیا ہے۔ ادھر ہر مشکل وقت میں پاکستان کی بھرپور مدد کرنیوالے برادر ملک سعودی عرب نے جو پہلے ہی ایک ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کر چکا ہے‘ اس سرمایہ کاری کو مزید 10 ارب ڈالر تک پہنچانے پر اتفاق کیا ہے۔ اسی طرح برادر ملک متحدہ عرب امارات نے جس کا ہم نے دو ارب ڈالر قرضہ ابھی ادا کرنا ہے‘ ادائیگی کی مدت میں توسیع کرکے ایک ارب ڈالرز اور قرضہ دینے کا اعلان کیا ہے۔ برطانیہ پہلے ہی اسٹرلنگ میں بھاری رقم دینے کا اعلان کر چکا ہے۔ وزیراعظم پاکستان کا یہ دورہ کامیاب رہا مگر ماہر معاشیات میرے ایک گورے دوست نے یہ طعنہ مجھے ضرور دیا ہے جس کا اردو میں آسان ترین ترجمہ یہ کہ مانگنی امداد ہو اور رہائشی معیار فائیو سٹار ہو‘ عقل سے بالاتر ہے۔
یہاں مجھے برطانیہ کے پاکستان میں تین برس تک تعینات رہنے والے ہائی کمشنر ڈاکٹر کرسچن ٹرنر کو انکی مدت پوری ہونے پر اس لئے بھی خراج تحسین پیش کرنا ہے کہ اپنے عرصہ ء تعیناتی میں برطانیہ اور پاکستان کے دوستانہ تعلقات کے فروغ و استحکام کیلئے انہوں نے جو خدمات سرانجام دیں انہیں ہمیشہ یاد رکھا جائیگا۔ جذبہ خیرسگالی سے سرشار پاکستان میں تعلیم و صحت کے مسائل اور ترقیاتی پروگراموں میں انکی خصوصی دلچسپی کو ہرگز نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ برٹش ایئرویز کی بحالی اور انگلینڈ کرکٹ ٹیم کے دورہ ٔ پاکستان میں بھی انہوں نے خصوصی کردار ادا کیا۔ اردو زبان پر انہیں چونکہ خاص دسترس حاصل ہے‘ اس لئے پاکستانی ثقافت کے حوالے سے بیشتر قومی تقاریب میں شرکت کرتے رہے۔ میری اطلاعات کے مطابق چند روز قبل ڈاکٹر کرسچن ٹرنر لندن پہنچ چکے ہیں۔ یہاں انہیں ایک اور اعلیٰ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ ماضی میں وہ برطانوی وزیراعظم کے بین الاقوامی امور اور نیشنل سکیورٹی کے ایڈوائزر بھی رہ چکے ہیں۔ صفائی کے حوالہ سے مئی 2021ء کا وہ واقعہ مجھے آج بھی یاد ہے جو مارگلہ میں صبح کی چہل قدمی کے دوران انکے ساتھ پیش آیا۔ وہ چہل قدمی کر رہے تھے کہ انہیں کوڑے کرکٹ کا ایک ڈھیر نظر آیا جس میں Disposible food trays میں بچے کھچے کھانے کی اچھی خاصی مقدار موجود تھی جس سے انہیں گھٹن محسوس ہوئی چنانچہ یہ سوچ پیدا کئے بغیر کہ پاکستان میں وہ برطانیہ کے ہائی کمشنر ہیں‘ اس بچے کھچے کھانے کو کوڑے کے دو بیگوں میں جمع کرکے Dispose off کرنے کے بعد جو الفاظ انہوں نے ادا کئے‘ انہیں میں آج تک بھلا نہیں پایا۔ انہوں نے کہا کہ ’’کھانا گندگی پھیلانے کیلئے نہیں بلکہ تقسیم کرنے کیلئے ہوتا ہے‘‘۔ ان الفاظ کے بعد میں اس سوچ میں گم تھا کہ پاکستانی شہری اگر ہوتا تو کوڑا کرکٹ دیکھ کر راستہ تبدیل کرلیتا مگر ڈاکٹر ٹرنر نے کوڑے کو Rabbish bag میں ڈال کر یہ ثابت کر دیا کہ صفائی مذہب یا اعلیٰ عہدہ نہیں دیکھتی بلکہ اس عمل سے انسان خود کو بڑا بنا لیتا ہے کہ اسلام میں صفائی نصف ایمان ہے۔ میری تصنیف’’ ولایت نامہ‘‘ ان تک چونکہ پہنچ چکی ہے اس لئے انکے پاس اب وقت بھی ہے اور اردو زبان سے عملی دلچسپی کا ذریعہ بھی۔ مجھے اپنی اس کتاب کے بارے میں اب تک انکے تاثرات کا انتظار ہے۔