پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں ٹوٹ جانے سے ایک نئے آئینی بحران کے پیدا ہونے کا امکان ہے۔ آئین کے آرٹیکل 224 کے تحت الیکشن کا انعقاد نگران حکومت کی ذمہ داری ہے، اگر ان دو صوبوں میں نگران حکومتوں کے زیرنگرانی انتخابات ہوجاتے ہیں تو یہ انتخابات صرف صوبائی اسمبلی کے لیے ہوں گے۔ اور جب باری آئے گی قومی اسمبلی کے لیے عام انتخابات کی تو پھر ان دو صوبوں میں نگران حکومتیں نہیں ہوں گی، جبکہ مرکز اور دو صوبوں میں نگران حکومتیں ہوں گی۔ پنجاب اور کے پی کے میں سیاسی جماعتوں کی حکومتوں کی موجودگی میں اس بات کو یقینی کیسے بنایا جاسکے گا کہ صوبائی حکومتیں قومی اسمبلی کے انتخابات پر اثر انداز نہ ہوں؟
جن آئین سازوں نے نگران حکومتوں کا تصور پیش کیا۔ ان کا خیال تھا کہ مرکز اور صوبوں میں ایک ہی وقت میں الیکشنز ہوا کریں گے، اور ایک ہی وقت پر شروع ہونے والی پانچ سالہ مدت بھی ایک ہی ساتھ اختتام پذیر ہوا کرے گی۔ یہ شاید ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگا کہ ایک یا ایک سے زیادہ صوبائی حکومتیں وقت سے پہلے بھی ختم کی جاسکیں گی۔آئین کا آرٹیکل 25 (اے) شہریوں کے ساتھ یکساں سلوک کی بات کرتا ہے ۔ دو صوبوں میں نگران حکومت کی سرپرستی میں قومی اسمبلی کے ممبران کا چناؤ اور دو صوبوں میں نگران حکومتوں کی سرپرستی میں قومی اسمبلی کے ممبران کا انتخاب آئین میں دیے گئے یکساں حقوق کی واضح خلاف ورزی ہوگا۔
انتخابی قوانین کی رو سے حکومتی عہدیداران انتخابی سرگرمی میں حصہ نہیں لے سکتے، یہی وجہ ہے کہ گذشتہ ضمنی انتخابات میں جو وفاقی یا صوبائی وزراء سیاسی انتخابی سرگرمی میں حصہ لینا چاہتے تھے، وہ اپنے عہدہ سے مستعفی ہوگئے تھے۔ یہ کیسے ممکن ہوگا کہ جب مْلک کے دو صوبوں میں الیکشن ہو ںاور وہاں کی سیاسی حکومتیں خود کو انتخابی عمل سے باز رکھ سکیں؟ وزیراعلی اور وزراء کو کس طرح باز رکھا جاسکے گا کہ وہ قومی اسمبلی کے انتخابات کے نتائج پر اثرانداز نہ ہوں۔نگران حکومت کی غیر موجودگی میں شفاف ، غیر جانبدارنہ، یا آزادانہ و منصفانہ انتخابات کا انعقاد شاید ممکن نہ ہوسکے۔
پاکستان میں ماضی میں قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے انتخابات کا انعقاد مختلف اوقات میں کیا جاتا رہا۔ یعنی قومی اسمبلی کے انتخابات کے چند روز بعد صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات منعقد ہوا کرتے تھے۔ مگر دیکھا گیا کہ قومی اسمبلی کے نتائج چند دن بعد ہونے والے صوبائی اسمبلی کے انتخابات پر اثرانداز ہوتے تھے۔ اس اثر کو زائل کرنے کے لیے قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی روز کروانے کا فیصلہ ہوا تھا۔ جسے سیاسی جماعتوں اور عوام نے بہت سراہا تھا۔ اب علیحدہ علیحدہ وقت پر انتخابات کے انعقاد سے اس اصول کی بھی نفی ہوجائے گی جو برسوں کے تجربہ کے بعد اپنایا گیا تھا۔
ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ اگر ایک یا دو صوبے یا وہاں کی حکومتیں آئینی مدت سے پہلے اپنی اسمبلی تحلیل کرتے ہیں تو اس عمل کے نتیجہ میں وفاقی حکومت اور دیگر صوبائی حکومتیں کیوں اپنی آئینی مدت پوری نہ کریں ؟ خصوصاً یہ اقدام وفاق کو کمزور سے کمزور تر کرنیکے مترادف ہے۔ اس سے تویہ امکان پیدا ہوسکتا ہے کہ آئندہ بھی کوئی ایک یا ایک سے زائد صوبائی اکائیاں وفاقی حکومت کے خاتمہ کے لیے اس طرح کا اقدام کرنے میں حق بجانب ہوں گی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسمبلیوں کی آئینی مدت کی تکمیل کے بعد آئین میں نگران حکومت کے تحت نئے عام انتخابات ساٹھ روز کی مدت میں ہوں گے۔لیکن اگر کوئی اسمبلی اپنی آئینی مدت سے پہلے تحلیل ہوجائے تو نوّے روز کے اندر انتخابات ہونا لازم ہیں۔ گویا آئین میں اس امکان کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے کہ اسمبلیاں اپنی آئینی مدت کی تکمیل سے قبل بھی تحلیل ہوسکتی ہیں ، مگر یہاں پھر آئین سازوں کی منشا یہ ہی دکھائی دیتی ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلیاں ایک ساتھ تحلیل ہوں، وگرنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک یا دو صوبوں میں نگران حکومت دو ماہ کے لیے تشکیل پاکر نئے انتخابات کروائے اور وفاق اور باقی صوبوں میں نگران حکومت یہ ہی کام تین ماہ کی مدت میں سرانجام دے۔ یہ پھر آئین میں دیے گئے شہریوں کو برابری کے حقوق کی صریحاً خلاف ورزی ہوگی۔
انتخابات پر بھاری اخراجات ہوتے ہیں، پاکستان میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی دن کروانے کی سیاسی وجوہات کے علاوہ معاشی وجوہات بھی ہیں ، عام انتخابات پر کروڑوں نہیں بلکہ اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔ پاکستان کے نامساعد معاشی حالات بھی اس بات کے متقاضی ہیں کہ روز روز انتخابات پر عوام کے ٹیکسوں کا پیسہ یوں بے دردی سے نہ لٹایا جائے۔ ایک طرف سیاستدان مْلک کے دیوالیہ ہونے کا راگ الاپتے رہتے ہیں، دوسری طرف حالت یہ ہے کہ اقتدار کے لالچ میں آئے دن کبھی ضمنی تو کبھی مقامی، صوبائی اور عام انتخابات کی رٹ لگائے رکھتے ہیں۔ پاکستان کے وسیع تر قومی معاشی مفاد میں ہے کہ تمام مقامی، صوبائی اور عام انتخابات ایک ہی روز کروائے جائیں۔ امریکہ اور یورپ کے ممالک میں بھی الیکشن والے دن شہری ایک نہیں بلکہ درجنوں عہدیداروں کے لیے ووٹ ڈالتے ہیں۔ایک ہی روز عام انتخابات ہونے سے غریب عوام کے ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی بھاری رقم بچائی جاسکتی ہے، جسے عوامی فلاح و بہبود کے دیگر کاموں پر خرچ کیا جاسکتا ہے۔
موجودہ صورتحال میں آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت سپریم کورٹ از خود نوٹس لے سکتی ہے جس کا تعلق شہریوں کے بنیادی حقوق اور مفاد عامہ سے ہو۔ مرکز اور صوبوں کے مابین تنازعہ کی صورت میں بھی سپریم کورٹ آئینی راستہ نکال سکتی ہے۔ پنجاب اور کے پی کے میں مجوزہ نگران حکومتوں کی مدت میں چند ماہ کا اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ عدالت عظمی میں صدارتی ریفرنس دائر کیا جاسکتا ہے تاکہ اس آئینی بحران کا حل نکالا جاسکے۔ وفاقی حکومت صدارتی ریفرنس کے ذریعہ بھی عدالت کی رائے معلوم کرسکتی ہے۔ لگتا ہے کہ گیند ایک بار پھر سپریم کورٹ کی کورٹ میں آگئی ہے۔