یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں ،اگرچہ لاہور بک فیئر یکم مارچ سے چار مارچ تک منعقد ہو رہا ہے اور یہ پچھلے ڈیڑھ عشرے سے کامیابیوں کا ایک عظیم شاہنامہ ہے ‘اس نے کتاب کلچر کے فروغ میں بہت اہم اور کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ تاہم میں پہلے محمد فیصل کا ذکر کروں گاجس سے میری شناسائی پچھلے پانچ عشروں سے ہے ۔وہ میرا دوست ہے،میرا بھائی ہے،میرا سنگی ساتھی ہے،وہ میراہم پیالہ اور ہم مشرب ہے ۔میں نے اسے لاہور کے افق پر تابناک کہکشائوں میں تلاش کیا۔وہ ابتدائی زندگی سے ہی کتابوں کا رسیا تھا۔اپنے شوق کی تکمیل کے لیے وہ نئی انارکلی کے چوک میں واقع آئیڈیل بک ہائوس میں آن پہنچا ۔یہ ایک بہت بڑی دکان تھی جس میں زیادہ تر انگریزی زبان کی کتابیں تھیں ۔لیکن فیصل نے یہاں اپنی آمد کے بعد اردو کی کتابوں سے بھی کئی الماریاں بھر دیں ۔آئیڈیل بک ہائوس کے مالک عبد الحمید تھے جنہیں عرف عام میں بائو جی کہا جاتا تھی ۔وہ ایک اچھے میزبان تھے ۔ان کی وسیع وعریض دکان میں ایک طرف پانچ چھ کرسیاں لگی ہوتیں۔ قیوم نظر، دائرہ معارف اسلامیہ والے سید امجد الطاف، پروفیسر صابر لودھی اور پروفیسر اصغر سلیم روزانہ سہ پہر کو یہاں اکٹھے ہوتے ۔کبھی کبھار ڈاکٹر سید عبد اللہ ،اشفاق احمد اور بانو قدسیہ سے بھی یہ محفل سج جاتی ۔میں اور وحید رضا بھٹی بھی انارکلی میں ٹہلتے ٹہلتے چائے پینے کے لیے یہاں آجاتے۔ کبھی ہمارے ساتھ باصر کاظمی بھی ہوتے ۔آج کل وہ انگلستان میں انگلش لٹریچر کے پروفیسر ہیں اور ان کی کتابیں اے لیول اور او لیول کے نصاب میں شامل ہیں۔مجھے یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ وہ ناصر کاظمی کے بیٹے ہیں ۔ محمد فیصل ان محفلوں سے بہت کچھ سیکھتے ،وہ اس دکان سے الگ ہوئے تو کچھ عرصہ مختلف دکانوں پر بیٹھ کر انہوں نے کتابوں کا کاروبار کیا ۔ایک دن میں نے دیکھا کہ وہ اردو بازار کی ایک ویران سی گلی،ایک ویران سے علاقے غزنی اسٹریٹ میں دکان تعمیر کر رہے ہیں ۔میرے منہ سے نکلا کہ فیصل صاحب مین اردو بازار کو چھوڑ کر اس گلی میں خریدار کیوں آئے گا۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ غزنی اسٹریٹ میں کتابوں کا کاروبار اردو بازار کے مقابلے میں بڑھ گیا اور یہاں خریداروں کا جمگھٹا رہنے لگا۔ محمد فیصل کو یہاں اپنی صلاحیتیں آزمانے کا خوب موقع ملا ،انہوں نے صدیق سالک ،ممتاز مفتی ،کرنل محمد خان ،ادا جعفری اور شفیق الرحمن جیسے مایہ ناز ادیبوں کی کتابوں سے اپنا شوروم بھر لیا ۔ساتھ ہی ساتھ وہ ٹیکسٹ بک بورڈ میں اے کیٹیگری میں رجسٹر ہو گئے۔ اب ان کا کاروباری عروج آنکھیں خیرہ کر دینے والا تھا ۔آئیڈیل بک ہائوس میں چائے والا محمد فیصل پاکستان کا سب سے ممتاز اور بڑا ناشر بن گیا۔اس نے سید سلیمان ندوی کی سیرت النبی ﷺ،تاریخ طبری اور تاریخ ابن خلدون جیسی معرکہ آراء کلاسیکل کتابیں بھی شائع کرنے کا اعزاز حاصل کیا ۔اب محمد فیصل کا ادارہ الفیصل ناشران و تاجران کتب نامی گرامی اداروں کا ہم پلہ بن چکا تھا ۔محمد فیصل نے بچپن میں بھوک دیکھی تھی فاقے برداشت کیے تھے ،آئیڈیل بک ہائوس کی دو سو روپے کی تنخواہ پر گزارہ کرنے کی کوشش کی تھی لیکن آج یہی محمد فیصل کتابوں کی دنیا کا ایک بڑا نام بھی ہے وہ سیٹھ اور لکھ پتی کا رتبہ حاصل کر چکا ہے ۔مگر موبائل فون کی ترقی نے کتب بینی کو بحران میں مبتلا کیا تو محمد فیصل کو اپنا کاروبار بچانے کے لیے نئے انداز میں سرگرم ہونا پڑا ۔ان کی دوستی ایک اور ناشر زبیر سعید سے ہو گئی ۔دونوں مل کر ایک مرتبہ دہلی کے کتاب میلے میں گئے اور وہ بھارت میں اس کاروبار کی ترقی پر عش عش کر اٹھے۔ ان دونوں نے سوچا کہ کیوں نہ پاکستان میں بھی کتاب میلہ کی روایت ڈالی جائے تاکہ کتاب کلچر کو زندہ کیا جاسکے ۔خوش قسمتی سے انہیں گورنر خالد مقبول کی سرپرستی حاصل ہو گئی جنہوں نے لاہور فورٹریس اسٹیڈیم کتابوں کی نمائش لگانے کے لیے ان کی بے حد مدد کی ۔اس وقت تک نجم سیٹھی صاحب بھی ان کی کوششوں میں شریک ہو چکے تھے۔ وہ انتہائی اثر و رسوخ رکھنے والے انسان ہیں۔ ان کی وجہ سے کتاب میلے کو چار چاند لگ گئے۔ محمد فیصل وسیع جہانوں کی تلاش میں تھے۔ کتاب میلے کے لیے ان کی نظر انتخاب لاہور ایکسپو سینٹر پر پڑی مگر اس کی انتظامیہ نے ان سے چار دن کے میلے کے لیے ایک کروڑ روپیہ مانگا ۔محمد فیصل دل شکستہ نہیں ہوئے ۔انہوں نے کتاب میلے کے انعقاد کے لیے ایک مجلس انتظامیہ رجسٹر کروائی جس میں کاشف زبیر،سلیم ملک اور بابر حمید کو اپنے ساتھ شامل کیا ۔ کتاب کلچر کے فروغ کے لیے ان سب نے اپنی زندگی وقف کردی ہے ۔ گزشتہ ڈیڑھ عشرے سے لاہور انٹرنیشنل بک فیئر ایکسپو سینٹر میں منعقد ہو رہا ہے یہ کتابوں کے لیے ایک شایان شان جگہ ہے۔ یہاں کوئی دو سوکے قریب اسٹال لگائے جاتے ہیں۔ کئی ادارے ایک سے زیادہ سٹال بھی لیتے ہیں۔ اس میلے کی کامیابی کا پیمانہ یہ نہیں کہ یہاں پر کتابیں کتنی فروخت ہوتی ہیں ۔بلکہ اس کی کامیابی کا معیار جانچنے کے لئے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ یہاں شائقین کا جمگھٹا کتنا رہتا ہے ۔پورے پورے خاندان یہاں آتے ہیں اور سارا دن سٹالوں پر کتابوں پر نظر ڈالتے ہیں۔ سند کی کتابیں خریدنے کا شوق بھی بڑھ رہا ہے لیکن میلے کی اصل کامیابی یہ ہے کہ وہ کتاب کلچر کے فروغ کا باعث بن رہا ہے اور لاہور اور اس کے مضافات کے لوگوں کو انتظار رہتا ہے کہ یہ میلہ کب منعقد ہوگا۔ لاہور بک فیئر کے ساتھ ساتھ اسی طرز پر ایک کراچی میں بھی کتاب میلہ لگایا جاتا ہے جس کے لیے پاکستان پبلشرز ایسو سی ایشن تعاون کرتی ہے اور وہاں بھی کتابوں کے شائقین کا ایک جم گھٹا لگ جاتا ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ کتابوں کے ناشرین چند روز کے اندر اپنا لاکھوں کا نقصان کرتے ہیں لیکن وہ نئی نسل کے اندر کتاب بینی کے رجحان کو فروغ دینے کا باعث بن رہے ہیں‘ یہ ایک بہت بڑی قومی خدمت ہے جو آج کل کے آئی ٹی کے دور میں ایک خواب سی نظر آتی ہے ۔اب تو چھوٹا بچہ بھی موبائل پر گیمز کھیلتا اور کارٹونوں سے دل بہلاتا دکھائی دیتا ہے۔نوجوان اور بڑی عمر کے لوگ بھی ہمہ وقت اپنی نظریں موبائل اسکرین پر جمائے رکھتے ہیں ۔
طا لب علموں کی آن لائن تعلیم کا ذریعہ بھی موبائل فون ہیں ۔وہ کتابیں بھی پڑھنا چاہیں تو پی ڈی ایف کی شکل میں ڈائون لوڈ کر لیتے ہیں ۔انٹر نیٹ کی دنیا نے پرنٹ میڈیا کو بے بس کرکے رکھ دیا ہے مگر محمد فیصل جیسے دیوانے اور فرزانے آس کا دیا جلائے بیٹھے ہیں وہ مال ہی کمانا چاہیں تو کتابوں کی اشاعت چھوڑ کر کھاد کی ایجنسیاں حاصل کر سکتے ہیں ۔لیکن انہیں لوگوں کی اخلاقی اور ذہنی تربیت کا بھی خیال رہتا ہے ۔اور یوں وہ کتابی دنیا سے جڑے ہوئے ہیں اور نہ صرف اپنے روزگار کا بند و بست کرتے ہیں بلکہ لوگوں میں یہ شوق بیدار کرتے ہیں کہ وہ کتابیں خرید کر پڑھیں یا لائبریریوں سے حاصل کرکے پڑھیں۔ ان کا موٹو کتاب کلچر کا فروغ ہے اور آئی ٹی کی دنیا میں ایک سخت مقابلے کے باوجود انہوں نے اپنی بقا کا راز پا لیا ہے ۔محمد فیصل گزشتہ دنوں یہ ساری تفصیل سنانے کے لیے میرے گھر آئے ،وہ مجھے بڑے پر عزم دکھائی دیئے ۔نا امیدی کا سایہ بھی ان پر نہیں پڑا ،مجھے وہ محمد فیصل یاد آتا ہے جسے میں نے اس کی نو عمری میں شب وروز کتابوں کی الماریوں سے کھیلتے دیکھا تھا ۔قسمت کی دیوی اس پر ہمیشہ مہربان رہی ہے اور مجھے یقین ہے کہ کتاب پڑھنے کے رجحان کو وقت کے ساتھ ساتھ فروغ حاصل ہوگا۔امید کا یہ چراغ محمد فیصل کی آنکھوں میں روشن ہے ۔