سپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف کی جانب سے عوامی مسلم لیگ کے قائد شیخ رشید احمد اور پاکستان تحریکِ انصاف کے 34 ، ارکانِ قومی اسمبلی کے استعفے منظور کئے جانے کے بعد پاکستان الیکشن کمشن نے دو خواتین ارکان قومی اسمبلی سمیت مجموعی 35 ، ارکان کو بطور رکن قومی اسمبلی ڈی نوٹیفائی کر دیا اور ان کی نشستیں خالی قرار دے دیں۔ شیخ رشید کے علاوہ پی ٹی آئی کے جن ارکان کی نشستیں خالی قرار دی گئی ہیں ان میں اسد عمر، مراد سعید، عمر ایوب، پرویز خٹک، اسد قیصر، شہریار آفریدی، علی امین گنڈا پور، نورالحق قادری، عمران خٹک، علی نواز اعوان، صداقت علی عباسی، غلام سرور خاں، منصور حیات خاں، چودھری فواد حسین ، ثناء اللہ مستی خیل، حماد اظہر، شفقت محمود، مخدوم شاہ محمود قریشی، زرتاج گل، عامر ڈوگر، فہیم خاں، سید علی حیدر زیدی، سیف الرحمان، آفتاب حسین صدیقی ، قاسم سوری، کنول شوزب اور عالیہ حمزہ ملک بھی شامل ہیں۔
یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ گزشتہ سال دس اپریل کو عمران خان کے خلاف متحدہ اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کی منظوری اور پی ٹی آئی حکومت کے خاتمہ کے بعد عمران خان نے قومی اسمبلی میں نہ بیٹھنے کا فیصلہ کیا اور پی ٹی آئی کے 135 ، ارکان کے استعفے اجتماعی طور پر اس وقت کے قائم مقام سپیکر قاسم سوری کے حوالے کر دئیے گئے جو انہوں نے منظور کر لئے تاہم نئے سپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے بعض استعفے منظور کر کے باقیماندہ مستعفی ارکان کو فرداً فرداً پیش ہو کر اپنے استعفوں کی تصدیق کا کہا ۔ تحریکِ انصاف نے پہلے تو اپنے ارکان کے فرداً فرداً پیش ہونے سے معذرت کی تاہم بعدازاں اپنے ارکان کی انفرادی یا اجتماعی پیشی کے لیے خامی بھر لی، عدالت عظمیٰ نے عمران خان سمیت پی ٹی آئی کے ارکان کے استعفوں کی منظوری سے متعلق سپیکر قومی اسمبلی کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دے دیا چنانچہ ان نشستوں کے ضمنی انتخابات میں سات نشستوں پر عمران خان خود امیدوار بنے اورجن میں سے چھ نشستوں پر کامیابی حاصل کر لی تاہم ان کے کسی ایک نشست پر حلف نہ اُٹھانے کے باعث متذکرہ نشستوں کے دوبارہ ضمنی میںانتخابات کی اب تک نوبت نہیں آ سکی، جبکہ اب سپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے شیخ رشید اور پی ٹی آئی کے 34 ، ارکان کے استعفے منظور کئے گئے ہیں تو عمران خان نے ان تمام نشستوں کے ضمنی انتخابات خود امیدوار بننے کا اعلان کر دیا ہے۔ اس کے برعکس حکمران اتحاد پی ڈی ایم کی جانب سے مجوزہ ضمنی انتخابات میں اپنا کوئی بھی امیدوار کھڑا نہ کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس طرح پی ڈی ایم سے باہرکا بھی کوئی امیدوار سامنے نہ آنے کی صورت میں عمران خان کے متذکرہ تمام نشستوں پر بلامقابلہ منتخب ہونے کا امکان ہے البتہ وہ ایک ہی سیٹ اپنے پاس رکھ سکیں گے اور دوسری نشستوں پر الیکشن کمشن کو دوبارہ ضمنی انتخابات کرانا پڑیں گے۔ چونکہ یہ ضمنی انتخابات قومی اسمبلی کی باقیماندہ میعاد تک زیادہ سے زیادہ چار پانچ ماہ کی مدت کے لیے ہوں گے اس لیے پی ٹی آئی کے مقابل کوئی بھی امیدوار انتہائی محدود مدت کے انتخابات میں بھاری انتخابی اخراجات کا بوجھ اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہو گا۔
یہ بلاشبہ قوم کے لیے ہی نہیں، پورے سسٹم کے لیے لمحۂ فکریہ ہے کہ 2018ء کو عام انتخابات کے نتیجہ میں قائم ہونے والی وفاقی اور صوبائی اسمبلیوں اور وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے ان اسمبلیوں کے ذریعے جمہوریت کے ثمرات عوام کی جانب منتقل کرنے اور ان کے روٹی روزگار کے گھمبیر مسائل کا مداوا کرنے کے بجائے اپوزیشن کو دیوار سے لگانے کے لیے افراتفری اور بلیم گیم کی سیاست کا سلسلہ شروع کر دیا، جس کے نتیجہ میں محاذ آرائی ، انتشار اور ایک دوسرے کے ساتھ نفرت و حقارت کے در آنے والے کلچر نے جمہوریت کا مردہ خراب کرنے کے آثار پیدا کر دئیے۔ عمران خان نے بطور وزیر اعظم خود بلیم گیم کی سیاست کو تقویت پہنچائی اور مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی قیادت کو دیوار سے لگانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی جنہیں چور ڈاکو کے خطاب سے بھی نوازا گیا اور ان کے لیے نیب کا شکنجہ بھی سخت کر دیا گیا چنانچہ ان حکومتی اقدامات سے زچ ہوئی اپوزیشن قیادتوں کو پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر متحد ہونے اور پی ٹی آئی حکومت کے خلاف جارحانہ اندازِ سیاست اختیار کرنے کا موقع مل گیا، جبکہ گھمبیر ہوتے روٹی روزگار اور غربت، مہنگائی کے مسائل پر عوام کے اضطراب کو بھانپ کر متحدہ اپوزیشن کو حکومت کے خلاف پوائنٹ سکورنگ کا نادر موقع ملا۔ اسی بنیاد پر عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے پی ٹی آئی حکومت کا خاتمہ بھی ممکن ہو گیا مگر عمران خان نے اپنی سیاسی غلطیوں کا احساس کرنے کے بجائے پہلے سے بھی زیادہ جارحانہ سیاست کا راستہ اختیار کر لیا اور بیرونی سازش کا بیانیہ تیار کر کے پبلک جلسوں کا سلسلہ شروع کر دیا جن میں حکومتی اتحاد کے قائدین کے علاوہ قومی ریاستی اداروں بالخصوص فوج اور عدلیہ کی جانب کیچڑ اچھالنے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا اور عمران خان ان اداروں کی قیادتوں کا نام لے کر انہیں کڑی تنقید کا نشانہ بنانے لگے جس سے سیاسی فضا مزید مکدّر ہوئی۔
اپنی اس احتجاجی تحریک کے ذریعے عمران خان فوری انتخابات کے متقاضی ہوئے اور پھر انہوں نے فوری انتخابات کی راہ ہموار کرنے کے لیے پنجاب اور خیبر پی کے اسمبلی توڑنے کا اعلان کر دیا۔ ان کے اس اعلان کے تقریباً ڈیڑھ ماہ بعد وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی نے بالاخر پنجاب اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری گورنر پنجاب کو بھجوا دی جبکہ گزشتہ روز وزیرِ اعلیٰ خیبر پی کے محمود خان نے کے پی کے اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری گورنر خیبر پی کے کو بھجوا دی ہے۔ اس سے ملک میں غیر یقینی کی فضا کا مزید گھمبیر ہونا فطری امر تھا جبکہ اسی دوران سپریم کورٹ کے احکام کی روشنی میں سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کا آغاز ہو گیا جس پر حکومتی اتحادی ایم کیو ایم کے حکومت اور الیکشن کمشن کے ساتھ تحفظات پیدا ہوئے تو پی ٹی آئی قائد عمران خان کو سیاست میں مزید کھلبلی پیدا کرنے کا موقع مل گیا۔ انہوں نے قومی اسمبلی میں واپس جانے کا عندیہ دیتے ہوئے وزیر اعظم کے لیے اعتماد کا ووٹ لینے کی فضا گرمائی اور ساتھ ہی یہ دعویٰ بھی کیا کہ اب وزیر اعظم کو راتوں کو نیند بھی نہیں آئے گی۔ پی ٹی آئی کے دوسرے قائدین بھی حکومتی اتحاد کے ساتھ ایسا ٹھٹھہ مذاق کرتے نظر آئے جس سے بادی النظر میں جمہوریت کی کشتی بھنور میںپھنستی محسوس ہوئی۔
اسی فضا میں سپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے اپوزیشن کے 35 ، ارکان کے استعفے منظور کرنے کا فیصلہ صادر کر دیا گیا جو یقیناً عمران خان کی افراتفری کی سیاست کے توڑ کی حکمت عملی تھی۔ اب عمران خان کی قیادت میں یقیناً اپوزیشن کے لیے وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانا یا انہیں اعتماد کے ووٹ کے لیے کہنا عملاً ناممکن ہو جائے گا جبکہ ضمنی انتخابات کے حوالے سے عمران خان کی طے کی گئی حکمت عملی بھی ان کی سیاست میں اودھم مچائے رکھنے والی پالیسی کا ہی تسلسل ہے۔ یقیناً اسی تناظر میں حکومتی اتحاد کی جانب سے کوئی آئینی گنجائش نکال کر پنجاب اور خیبر پی کے اسمبلیوں کے انتخابات بھی قومی اسمبلی اور دوسری دو صوبائی اسمبلیوں کے ساتھ ہی کرانے کی حکمتِ عملی پر غور کیا جا رہا ہے بصورت دیگر بار بار کے انتخابات سے قومی خزانے پر بھی بے جا بوجھ پڑے گا اور الیکشن کمشن کے لیے بھی ہر تیسرے چوتھے ماہ انتخابات کا انتظام مشکل ہو جائے گا۔
اس حوالے سے ایک دوسرے کی مخالف سیاسی قیادتوں کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے کہ افراتفری اور مفاد پرستی کی اس سیاست میں ملک اور عوام کی کیا خدمت ہو رہی ہے اور سسٹم پر اس کے کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ فی الحقیقت تو اس سیاست نے ملک میں غیر یقینی بڑھانے اور ملک کو سیاسی و اقتصادی عدم استحکام کی جانب دھکیلنے کا راستہ ہی ہموار کیا ہے جو ہماری سلامتی کے درپے دشمن کو ملک کی سلامتی سے کھیلنے کا نادر موقع فراہم کرنے کے مترادف ہے۔ قومی سیاسی قیادتوں سمیت تمام سٹیک ہولڈرز کے لیے یہ لمحۂ فکریہ ہونا چاہیے کہ موجودہ صورت حال میں اودھم مچانے والی سیاست کے ہم متحمل بھی ہو سکتے ہیں یا نہیں۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ مسٹر جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں عدالتِ عظمیٰ کے خصوصی بنچ نے گزشتہ روز نیب ترامیم کیس کی سماعت کے دوران یقیناً اسی تناظر میں باور کرایا ہے کہ ایک شخص کے فیصلوں سے پورا سسٹم منجمد ہو رہا ہے اس لیے اس شخص کا کیس کیوں سُنا جائے جو پارلیمنٹ کا حصہ نہیں بننا چاہتا۔ یہ صورتحال بلاشبہ تمام فریقین کے سرجوڑ کر بیٹھنے اور افہام و تفہیم کے ساتھ سلجھائو کا راستہ اختیار کرنے کی متقاضی ہے۔ اپنی اپنی انائوں میں کم از کم جمہوریت کا مردہ تو خراب نہ ہونے دیا جائے۔