ریکوڈک منصوبے کی رائلٹی عوام پر خرچ کی جائے…!!! فیصل ادریس بٹ
………………
اس وقت ملک میں سیاسی بحران کی وجہ سے زبان زدِ عام ہے کہ آج حکومت گئی، کل گئی۔ دوسری جانب معیشت کا جن دل دہلا رہا ہے، اس کربناک صورتحال میں وزیراعظم میاں شہباز شریف دن رات انتھک محنت اور حکمت عملی سے سرتوڑ کوششیں کر رہے ہیں کہ ارض وطن کو اس سیاسی ومعاشی بھنور سے نکال کر سرخرو ہوسکیں۔ وزیراعظم شہباز شریف کی جنیوا میں کامیاب حکمت عملی ملکی معیشت اور سیلاب زدگان کی بحالی کے لیے خوش آئند ہے۔ اب روس سے مذاکرات کی کامیابی کا سہرا بھی انہی کے سر سجے گا۔ ایک محبِ وطن ملکی ساکھ کو گرنے سے بچانے کے لیے تڑپ رہا ہے۔ دوسری جانب اپوزیشن رہنما عمران خان ملک کے ان سیکرٹس کا سرِعام ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں جسکا فائدہ دشمن اُٹھا سکتے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ عوام محبِ وطن پالیسیزکے علمبردار اور اقتدار کے حصول کے لیے وطن دشمنی تک جانے والوں کا بائیکاٹ کریں۔ اگر اب بھی ہوش کے ناخن نہ لیے گئے تو کچھ نہیں بچے گا۔ خیبر پی کے اسمبلی کی تحلیل کے بعد اب بلوچستان سندھ حکومتوں کو اپنے پاؤں مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ عوام کو ریلیف دینے کے منصوبوں پر تیزی دکھانا ہوگی جیسے ریکوڈک منصوبے کے حوالے سے بلوچستان کے وزیر اعلیٰ نے ملنے والی رائلٹی کے معاہدے پر دستخط کر دئیے ہیں یہ بلوچستان کی عوام کے لیے خوش آئند ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو نے اسے ایک بڑی کامیاب پیش رفت قرار دیا ہے۔ ان کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ یہ منصوبہ بلوچستان میں تعمیر و ترقی اور خوشحالی کا ایک نیا باب رقم کرے گا۔ وزیراعلیٰ بلوچستان کے مطابق چند ماہ میں اس منصوبے کے معاہدے کے تحت بلوچستان کو اس حصے کی رائلٹی ملنا شروع ہو جائے گی۔ یہ خوش آئند بات ہے اگر حکومت بلوچستان نہایت ایمانداری سے صرف اس منصوبے کی رائلٹی کی مد میں حاصل ہونے والی رقم صوبے میں انصاف اور مساوات کے اصولوں کو مدِنظر رکھ کر خرچ کرے پسند نا پسند کی بجائے زیادہ پسماندہ علاقوں کو اوّلیت دے تو واقعی بلوچستان کی تقدیر بدل سکتی ہے اور عوام کو ریلیف مل سکتا ہے۔
بلوچستان میں جغرافیائی خدوخال کی وجہ سے موسمی تغیرات کی وجہ سے انسانی آبادیاں دور دور اور بہت کم ہیں زیادہ تر قبائلی نظام کی وجہ سے ہر قبیلہ اپنے مخصوص مقامات پر یا اپنے علاقے میں آباد ہے۔ ان دور دراز علاقوں میں آب رسانی، تعلیمی، طبی اور دیگر سہولتیں فراہم کرنا خاصہ مشکل امر ہے کیونکہ چھوٹی چھوٹی یہ آبادیاں دشوار گزار پہاڑی ، میدانی اور صحرائی علاقوں میں پھیلی ہوئی ہیں۔ آمد و رفت کیلئے سڑکیں بنانا سب سے اہم مسئلہ ہے جب تک یہ مسئلہ حل نہ ہو تو تمام پسماندہ علاقوں میں پانی بجلی طبی اور تعلیمی سہولتوں کی فراہمی مشکل ہے۔ اس کام کیلئے بڑے حوصلے اور صبر کی ضرورت ہے۔ اگر پہلے حکمرانوں نے اس پر توجہ دی ہوتی تو آج حالات بہتر ہوتے۔
اس وقت بلوچستان میں نوجوان قیادت اور صوبے سے محبت کرنے والے وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو کی حکومت ہے وہ اگر اپنے وزراء ارکان اسمبلی اور بیوروکریسی کو ساتھ ملا کر ایک قابل ٹیم تشکیل دیں تو صوبے کے پسماندہ علاقوں میں ترقیاتی کام شروع ہو سکتے ہیں جس کے ثمرات آنے والے الیکشن میں سامنے آئیں گے جو چند قدم کی دوری پر ہیں۔ اس کے برعکس اگر وہی پُرانے روایتی حربے استعمال کئے گئے اور قومی خزانے کو ذاتی جاگیر سمجھ کر خود ہی ہڑپ کرنے کی یا بندر بانٹ کی پالیسی برقرار رہی تو پھر آنے والے الیکشن میں موجودہ ارکان اسمبلی کی حالت خاصی خراب ہو سکتی ہے جس کا موجودہ حکومت کو اندازہ ہونا چاہئے۔ جو خود بھی مختلف المزاج سیاسی رہنماؤں کا مجموعہ ہے۔ ان میں سے کئی مفادات کے حصول کے لئے کسی بھی وقت کوئی بھی قدم اٹھا کر ’’باپ‘‘ کی وحدت کو پارہ پارہ کر سکتے ہیں۔
آج تک بلوچستان میں جتنی بھی حکومتیں آئیں، جتنے بھی وزیراعلیٰ اور وزراء نے عنانِ اقتدار اپنے ہاتھ میں لیا ان میں سے چند ایک کو چھوڑ کر سب سے یہاں کے عوام کو یہی شکوہ رہا ہے کہ انہوں نے ذاتی مفادات کو سیاسی نوازشات کو مقدم جانا اور عوام کو صرف طفل تسلیوں پر ٹرخایا۔یہ کچھ جھوٹ بھی نہیں یہ سابق حکمران اور وزیر ان کے علاوہ تمام ا رکان اسمبلی خواہ قومی کے ہوں یا صوبائی یا سینٹ ممبران جن کا تعلق تھا ہی بلوچستان سے اگر وہ سب مل کر اپنے اپنے علاقے کے لئے کام کرتے اپنے منظور شدہ اربوں روپے کے منصوبوں میں سے چند کروڑ روپے ہی ہر سال اپنے اپنے علاقے اور وہاں کے عوام پر خرچ کرتے تو کم از کم آج بلوچستان کے آدھے مسائل حل ہو چکے ہوتے۔ مگر افسوس ایسا نہیں ہو سکا البتہ پیدل چلنے والے لینڈ کروزوں اور کئی کئی ہزار گز کے بنگلوں کوٹھیوں کے مالک بن گئے۔ اکثر نے کراچی ، لاہور اور اسلام آباد کے پوش علاقوں میں بھی عالی شان محل بنائے ہیں جہاں بیٹھ کر وہ بلوچستان کی محرومی کا دُکھڑا بیان کرتے ہیں۔ کیا سیاسی کیا مذہبی کیا لبرل کیا سوشلسٹ یاکمیونسٹ عسکریت پسند یا علیحدگی کی بات کرنے والے سب پہلے اپنے مفادات کا خیال کرتے ہیں سب عوام سے زیادہ اپنی فکر میں مبتلا رہتے ہیں۔ اب یہ عبدالقدوس بزنجو اور ان کی ٹیم کا کڑا امتحان ہے کہ وہ کس طرح اس کم وقت میں تیاری کر کے ان معاملات کو سدھارنے کے لئے قدم اٹھاتے ہیں۔ کوئٹہ صوبے کا دارالحکومت اور سب سے بڑا شہر ہے۔ اس کے علاوہ یہ سی پیک منصوبے کے اہم ترین پوائنٹس میں شامل ہے۔ مگر اس شہر کی حالت دیکھیں تو رونا آتا ہے۔ یہ کسی قدیم دور کے کھنڈر نما شہر کا نقشہ پیش کرتا ہے اونچی اونچی عمارتیں بنا کر خود کو ترقی یافتہ شمار نہیں کیا جا سکتا اس لئے وزیراعلیٰ بلوچستان از خود سخت اقدامات کی راہ نکالیں اور ریکوڈک منصوبے سے حاصل شدہ رقم سے صوبے اور بلوچستان کے عوام کی تقدیر بدلنے کا سوچیں۔ صوبے کی انتظامیہ اور بیوروکریٹس میں اچھے اور فعال افسران موجود ہیں ان سے کام لیں اور قومی خزانے کو ترقیاتی فنڈز اور ریکوڈک کی رائلٹی کو صوبے پر اور یہاں کے عوام پر خرچ کر کے ایک اچھی مثال پیش کریں۔