قومی افق
عترت جعفری
اسلام آباد ،لاہور اور پشاور اہم سیاسی واقعات کو مرکز بنے ہوئے ہیں ،پنجاب اسمبلی وزیر اعلی کی ایڈوائس کے بعدتحلیل ہو گئی ،جبکہ کے پی کے اسمبلی بھی اپنی معیاد مکمل کئے بغیر ختم ہو چکی ہے ،پی ٹی آئی نے یہ اقدمات اپنے اس مطالبے کو منوانے کے لئے کئے کہ ملک میںجلد انتخابات ہوں ،اس کی اس عجلت پسندی کی جو وجہ سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ جلد انتخابات کی صورت میں اس کو بھاری اکثریت سے کامیابی کی امید ہے ،کیونکہ مہنگائی سے ملک کے عوام اکتائے ہوئے ہیں، بہرحال عوام کو اتنی سمجھ ضرور ہے کہ یہ مہنگائی راتوں رات نہیں ہوئی ہے ،گذشتہ ڈیڑھ سال سے افراط زر بڑھتا ہی چلا گیا ہے ،مرکز میں قائم اتحادی حکومت بھی اپنے پتوں کو کھیل رہی ہے،اور گذشتہ روز پی ٹی آئی کے35ارکان کے استعفے منظور کر لئے گئے،قومی اسمبلی کے سپیکر کی طرف سے پی ٹی آئی کے35 ارکان کے استعفوں کی منظوری کوئی ردعمل کا معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ سوچی سمجھی سیاسی چال ہے جس سے بہت سے مقاصد پورے ہو سکتے ہیں ، صدر مملکت کی طرف سے وزیر اعظم کو اعتماد کا ووٹ لینے کی بات شد ومد سے کی گئی ۔ جبکہ پی ٹی آئی نے قومی اسمبلی میں واپس آنے کا عندیہ بھی دیا ،جس کے بعد پی ٹی آئی کی قومی اسمبلی میں عددی حیثیت کو کمزور کرنا لازمی ہو چکا تھا ، حکومت نے اس طرح اعتماد کے ووٹ،کسی اتحادی جماعت کی علیحدگی ،اپوزیشن لیڈر کے منصب ،پی اے سی کے سربراہی کے حوالے سے اپنی پوزیشن مضبوط کی ہے ،پی ٹی آئی اب نئی صورت حال میں اگر ایوان میں واپس آتی ہے تو بھی اس کے لئے اپوزیشن لیڈر کی تعیناتی کے لئے اپنے ارکان کی اکثریت کو ثابت کرناآسان نہیں ہو گا ، کیونکہ پہلے ہی سے قومی اسمبلی میں ایک اپوزیشن لیڈر موجود ہے،اس کو ہٹانا اب آسان نہیں رہا ہے ،ابھی یہ سوال اپنی جگہ پر موجود رہے گا کہ دو صوبائی اسمبلیاں اب ختم ہو چکی ہیں،آئین کے تحت اب صوبائی سطح کے انتخابات اور قومی اسمبلی کے35حلقوں میں ضمنی انتخابات ہونا ضروری ہے ، مگر حکومت کو اب فیصلہ کرنا ہے کہ سب اسمبلیوں کے انتخاب ایک ساتھ ہوں یا قومی اسمبلی کو اس کی میعاد پوری کرنے تک چلایا جائے گا ،اتحادی حکومت کی جانب سے اب تک جو مؤقف سامنے آیا ہے اس کے مطابق تو الیکشن اکتوبر ہی میں ہوں گے،اس وقت جبکہ جنیوا کانفرنس کے انعقاد کے بعد ملک میں سیلاب زدگا ن کیلئے غیر ملکی امداد کا سلسلہ شروع ہونے والا ہے تو لگتا نہیں ہے کہ ملک میں انتخابات کی بساط بچھائی جاسکے گی ،کیونکہ ابھی ایک تسلسل کی ضرورت ہے۔
کراچی اور حیدرآباد ڈویژن میں بلدیاتی انتخابات کے جو نتائج سامنے آئے ہیں وہ اس بات کے غماض ہیں کہ کسی سیاسی جماعت کے لئے کوئی بڑی کامیابی اس کا انتظار نہیں کر رہی ہے ،اس لئے ہر سیاسی جماعت کو از سرنو اپنے اپنے سیاسی موقف کا جائزہ لینا چاہئے اور اس کو معروضی حالات سے ہم آہنگ کرنا چاہئے،پنجاب میں نگران حکومت بنانے کے لئے مسلم لیگ ن اور پی پی پی کر اراکن کی سہ رکنی کمیٹی بنا دی گئی ہے جو پی ٹی آئی کے ارکان کے ساتھ مل کر نگران وزیر اعلی پنجاب کے نام پر اتفاق رائے کرے گی ۔گذشتہ روز مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کی طرف سے نگران وزیر اعلی کے لئے جو نام سامنے آئے تھے ان کے بارے میں جو ردعمل سنا گیا ہے، اس سے بظاہر نہیں لگتا کہ کسی نام پر اتفاق ہو سکے گا مگر سیاست میں کچھ بھی ہو سکتا ہے ،۔وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا للہ پارٹی قائد نواز شریف کی طلبی پر لندن چلے گئے ہیں ،چودھری پرویز الہی کی طرف سے اعتماد کا ووٹ لینے کا معاملہ ابھی مسلم لیگ ن میں زیر بحث ہے ، اس حوالے سے بھی وجوہات کا جائزہ لیا جائے گا۔
ملک میں مہنگائی کے مسئلے کی ایک وجہ انرجی کی لاگت ہے ،جس کو کم کرنے ضرورت ہے ،حکومت نے گذشتہ ایک ماہ سے تیل کی عالمی قیمت میں کمی کو عوام تک منتقل نہیںکیا بلکہ آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کرنے لئے تیل کی قیمتوں کو برقرارر رکھا ہے اور لیوی بڑھائی ہے،اس پ پس منظرمیں ایک ا مید پیدا ہوئی ہے،کہ تیل کی قیمت کم کی جا سکے گی ۔روس سے سستا تیل اور ایل این جی کی خریداری، اسٹریم گیس پائپ لائن پر پاکستان روس انٹر گورنمنٹل کمیشن کے تحت 3 روزہ مذاکرات شروع ہو گئے۔ پاکستان اور روس کے درمیان آج پہلے روز ماہرین کی سطح پر مذاکرات ہو رہے ہیں۔مذاکرات بین الحکومتی کمیشن کی سطح پر ہو رہے ہیں اجلاس میں دونوں ملکوں کے وزراء بھی شریک ہوں گے ،وزارتی سطح کے اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی ایاز صادق کریں گے، جس میں وزیرِ مملکت پیٹرولیم مصدق ملک بھی شریک ہوں گے جبکہ روسی وزیرِ توانائی اپنے وفد کی نمائندگی کریں گے۔کراچی میں بلدیاتی انتخابات مکمل ہونے کے بعد جماعت اسلامی اور پی پی پی دونوں کراچی کی مئیر شپ کے دعویدار ہیں ،بہتر یہی رہے گا کہ دونوں جماعتیں میز پر بیٹھ جائیں اور کچھ دو اور کچھ لو کی بنیاد پر معاہدہ کر لیں تاکہ کراچی کے اندر ایک مضبوط مئیر عوام کے مسائل پر توجہ دے سکے۔
35 ارکان پی ٹی آئی کے استعفوں ککی منظوری سوچی سمجھی سیاسی چال
Jan 19, 2023