آواز خلق
فاطمہ ردا غوری
جس طرح جلدی بیماری دو طرح کی ہوا کرتی ہیں’’ لازم اور متعدی‘‘ اسی طرح دماغی بیماری کی بھی یہی دو اقسام بتائی جاتی ہیں لازم کی صورت یہ ہے کہ ایک شخص اپنے آپ کو غوروفکر اور تصحیح سے ماورا سمجھے اور متعدی یہ کہ وہ دوسروں کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بھی مسدود کردے!
دنیا کہاں سے کہاں جا پہنچی مغربی ممالک ترقی اور خوشحالی کے راستوں پر گامزن ہیں سقوط ڈھاکہ کے ذمرے میں ہم سے علیحدگی پانے والے بھی اب ٹکے ٹکے سے کہیں اوپر ی درجے پر فائز پائے جا رہے ہیں لیکن ہم پاکستانی خدا جانے کس قسم کے چکرویو میں پھس کر رہ گئے ہیں موجودہ حالات میں وطن عزیز کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ کیا پاکستان تحریک انصاف کو بلے کا انتخابی نشان واپس مل گیا ؟کیا پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے بلے کا نشان واپس لے لیا گیا ہے ؟ الیکشن مقررہ وقت پر ہو پائیں گے یا نہیں ؟بلے کے نشان کی مسنوخی کے بعد8 فروری سے پہلے بلا تھیلے سے باہر آ پائے گا یا نہیں؟ مزید برآں تفصیلات کے مطابق انتخابی نشان سے کچھ نہیں ہوتا ووٹ بانی پی ٹی آئی عمران خان کی امانت ہے اور عمران خان اب عوام کی ضد بن چکا ہے وغیرہ وغیرہ ۔۔ یہی وہ ذہنی بیماری ہے جس کی نشاندہی مندرجہ بالا سطور میں کی جا چکی ہے کہ اس بیماری کا شکار خود کو بھی قابل تصحیح نہیں سمجھتا اور اپنے سے منسلک لوگوں کے دماغ بھی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم کر دیتا ہے جس طرح اس وقت سابق وزیراعظم عمران خاںکو ضد بنائے بیٹھے عوام کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت مسدود ہو چکی ہے!
یہی سبب ہے کہ آج ہماری قومی اور اجتماعی حیات، ہماری مذہبی ،اخلاقی اور سیاسی زندگی ،ہمارا اقتصادی اور معاشرتی نظام الغرض ہماری ہر چیز خواہ کسی شعبہ حیات سے متعلق ہو کسی نظام زندگی سے وابستہ ہو بالکل ویسی ہی ہے جیسے اندھوں کی نزاع جب ان میں سے ہر ایک نے ہاتھی کے مختلف اعضاء کو ٹٹولنے کے بعد اسکی ماہیت کا اندازہ لگایا اور ہر ایک نے اپنے آپ کو سچا باور کر کے دوسرے کو برا بھلا کہنا شروع کیا حالانکہ ان میں سے کسی کے بھی اندازے کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں تھا یہی حالات ہمارے بھی ہیں آج جس چیز کو ہم یقین کی صورت پیش کر رہے ہیں وہ محض وہم و گمان ہیش!!!
جس طرح پاکستان سائنس اور ٹیکنالوجی اور دیگر کئی میدانوں میں پیچھے رہ چکا ہے اسی طرح ترقی و خوشحالی اور ایمانداری کے میدان میں بھی کوسوں دور ہے مغربی ممالک میں حکمرانوں سے پارلیمنٹ اور عوام ایک ایک پائی کا حساب لیتے ہیں دنیا کے تمام کامیاب مانے جانے والے ممالک میں ملک کی ترقی وخوشحالی اور معیشت کے حوالے سے مضبوط لائحہ عمل اختیار کیا جاتا ہے صحت اور تعلیم کے حوالے سے سنجیدہ اقدامات کئے جاتے ہیں لیکن ہمارے یہاں حکمرانوں کے پروٹوکول ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے یہاں خلفائے راشدین کے بعد حکمرانوں کی سادگی اور ایمانداری کی مثال کہیں دکھائی نہیں دیتی لاہور بحریا ٹائون ہو یا رائیونڈ ٗ گجرات یا پشاور ٗ لاڑکانہ ہو یا کراچی ٗ پشاور یا بنی گالہ ایسے ایسے محلات ہیں کہ کیا کہنے! یہ بات اپنی جگہ ایک تلخ حقیقت کی صورت موجود ہے کہ جہاں کے حکمران عیش و عشرت اور تن آسانی میں مبتلا ہوں وہاں کے عوام کی حالت زار یہی ہوتی ہے جو کہ ہم پاکستانیوں کی ہے جو حکمران پرتعیش محلات ،باہر کے ممالک میں اثاثہ جات ٗ توشہ خانہ کیسز جیسی خرافات کا شکار ہوں وہ عوام کو سوائے دھوکے اور فریب کے کچھ نہیں دے پاتے !!!
گذشتہ برس ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں ایک چوتھائی کمی واقع ریکارڈ کی گئی ملکی زرمبادلہ کا چھتیس فیصد سے زائد بیرونی قرضوں پر محیط تھا جبکہ افراط زر کی شرح انتالیس فیصد سے زائد بتائی گئی اقوام متحدہ کی رپورٹ پاکستان کی معیشت کی اندوہ ناک تصویر پیش کرتی ہے لیکن یہاں اقتدار اور سیاست کی جنگ ان تمام تفصیلات پر بھاری ہے افسوس ناک امر ہے کہ وطن عزیز میں سب سے کم بجٹ صحت و تعلیم کے لئے مختص کیا جاتا ہے جو کہ بمشکل سو سے ایک سو پچاس ارب کے درمیان ہے جن دو شعبوں پر محنت سے عوام کا فائدہ اور ملکی ترقی مشروط ہے وہی شعبے بدقسمتی سے تنزلی کا شکار ہیں اور ہمارا سب سے بڑا مسئلہ اقتدار اور سیاست کی جنگ ہے سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ نواز کے سینئر رہنماء میاں محمد نواز شریف کے حالات و واقعات نہ جانے کیوں ایسے دکھائی دے رہے ہیں کہ اگر سابق چییرمین پاکستان تحریک انصاف الیکشن سے پہلے ضمانت پر رہاہو گئے تو میاں صاحب خود کو ایک ایسا دروازہ سمجھ رہے ہیں جو عنقریب بند کر دیا جائے گا۔۔
ہر کسی کو اپنی اپنی پڑی ہے بس الیکشن جیتنا ہے اور اس مقابلے میں سرخرو ہونا ہے برسراقتدار آنا ہے خواہ آئینی طریقے سے یا غیر آئینی طریقے سے ٗ عوام کو سبز باغ دکھا کر، دھوکہ دے کر، نفسیاتی طور پر ہراساں کر کے یا جذباتی طور پر مفلوج کر کے کسی بھی طرح کرسی اقتدار پر براجمان ہونا ہے یہی ہمارے حکمرانوں کا انتخابی نشان ہے یہی ان کا لائحہ عمل ہے اور یہی ان کا منشور ہے اور یہ تمام کے تمام سیاستدان " روٹی تو کسی طور کما کھائے مچھندر " کی زندہ جاوید مثالیں ہیں اس تمام صورتحال کو دیکھتے ہوئے نہ جانے کو بار بار ذہن میں ایک لفظ ’’ڈنکی‘‘ آ رہا ہے پنجابی لفظ ’’ڈنکی ‘‘ایک اصطلاح ہے جس کے معنی ایک جگہ سے دوسری جگہ چھلانگ لگانا ہے یہ لفظ بذات خود ایک غیرقانونی طریقے کی غمازی کرتا ہے یعنی غیر آئینی غیرقانونی طریقے سے شارٹ کٹ لگا کر کسی جگہ پہنچنا ٗ اس وقت ہماری تمام سیاسی جماعتوں کی غیر قانونی چھلانگیں ٗ محاذ آرائیاں ٗ شارٹ کٹس ٗ دھماچوکڑیاں دیکھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ یہاں بھی
’’ڈنکی سیاست ‘‘ہی چل رہی ہے اور ہمارے ڈنکی سیاستدان اپنے اپنے مفادات کو بروئے کار رکھتے ہوئے اپنی اپنی منزل کی جانب ڈنکی لگانے میں مصروف عمل ہیں ان میں سے کسی کی بھی منزل کے راستے میں کہیں ایسا کوئی سائن بورڈ نہیں جس پر وطن عزیز کی بہتری سے متعلق کسی قسم کے جلی حروف کندہ ہوں ان سب نے مل کر وطن عزیز کو ہمیشہ نقصان ہی پہنچایا ہے پھر بھی ان کی ہمت کی داد دینے پر جی چاہتا ہے کہ آج بھی اپنے آپ کو ملک عزیز کے لئے موزوںقرار دیتے تھکتے نہیں جو تھیلے سے باہر ہیں وہ’’ ڈنکی سیاست ‘‘میں مبتلا ہیں اور جو ابھی نو مئی جیسے افسوس ناک واقعہ ٗ توشہ خانہ جیسے سنگین کیس کے بعد ملک و قوم کا سرنگوں کرنے کے ساتھ ساتھ ملکی پرچم کو سرنگوں کرنے کے واقعات میں ملوث ہونے کے سبب زندان میں ہیں وہ بھی اپنے آپ کو سپر پاور سمجھتے ہوئے دھڑلے سے دھمکیاں دیتے نظر آ رہے ہیں کہ باہر آ کر سب کا حساب بے باک کر دوں گا
" محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی "
ایران کے معروف شاعر حمید سلیمی نے کیا خوب کہا تھا
اماشکوفہ نداد وفہمیدم
من خاک مناسبی برای اونیستم
ترجمہ : لیکن اس پر شگوفے نہ کھلے اور میں جان گیا
کہ میں اس کے لئے مناسب مٹی نہیں ہوں
لیکن ہمارے ڈنکی سیاست کے مارے رہنمائوں کو نہ جانے کیوں آج تک احساس نہیں ہو پایا کہ یہ اس ملک کی مٹی کے لئے مناسب ثابت نہیں ہو پا رہے !!!