( خنساء سعید، سیالکوٹ)
حضرتِ انسان اَن گنت زمانوں سے اس تگ و تاز میں مگن رہا کہ فرشِ خاکی اور اس کے متعلقا ت ، زمردیں بحر اور ان کے متعلقات ،فضائے بسیط اور رفیع الشان آسمانوں میں پنہاں اسرارورموز طشتِ ازبام کر ڈالے ،ہر طلوع ہوتے سورج اور ہر بکھرتی پھیلتی شب انسان نے تسخیرِ کائنات کے خوابِ زریں دیکھے اور گزشتہ صدیوں میں اپنے خوابوں کو پورا کرنے کی مسلسل کوشش کرتا رہا پھر یوں ہوا کہ موجودہ اکیسویں صدی آ گئی۔اکیسویں صدی اپنی تمام تر قہر مانیوں اور برکتوں کو اپنے جلو میں سمیٹے ہم پر نازل ہوئی۔موجودہ صدی تاریخِ عالم میں سائنس و حرفت کی تیز ترین صدی ہے۔انسان شمس و قمر ، مریخ و مشتری پر کمندیں ڈال رہا ہے۔اس نے اس صدی میں زندگی کو سہل بنانے کے لیے نت نئی مشینیں ایجاد کیں جس نے پورے عالم کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ، ہیومن جنیوم پراجیکٹ بنایا گیا جس میں دنیا بھر میں بیماریوں کے خلاف ویکسین بنانیاور ان کا علاج دریافت کرنے میں مدد حاصل ہوئی ،نظامِ شمسی میں چھوٹا ، ٹھنڈا اور روشن ستارہ "سدنا"انسان نے ڈھونڈ نکالا۔نینو اسپائیڈر ٹیکنالوجی دریافت ہوئی ،دنیا میں پہلی بار مکمل طور پر چہرے کا ٹرانسپلانٹ کیا گیا ، ڈارک میٹر کو دریافت کر لیا گیا ،جلد کی مدد سے نئی جلد بنانا ممکن ہوا ، مریخ پر پانی کے ذخائر تلاش کیے گئے ،کینسر کو سونگنے والے آلات تخلیق ہوئے ،سائنسدانوں نے کیپلر 22بی نامی ہماری زمین کی طرز کا پہلا سیارہ ڈھونڈ نکالا،کلوننگ کی مدد سے پہلا انسانی بیضہ تیار کیا گیا ،کائنات کے کنارے پر روشن بلیک ہول دریافت کیا گیا ، ٹرونارتھ کے نام سے انسانی دماغ کی طرح کام کرنے والی کمپیوٹر چپ تیار کی گئی ،مصنوعی ذہانت نے تہلکہ مچا کر رکھا ہے ،روبوٹس انسان کی جگہ لے رہے ہیں۔صرف یہ ہی نہیں اکیسویں صدی گزشتہ تمام صدیوں کی ایجادات کا نیا پیراہن بھی ہے۔ماحولیاتی تبدیلیاں ،سیاسی منظر نامہ ، سماجی بدحالیاں ، اخلاقی پسماندگیاں غرض ہر شعبہ ہائے زندگی میں جدت اور تغیر و تبدل کے عناصر کار فرما ہیں۔
ہر صدی کی ایجادات ،دریافتیں جہاں انسانوں کے حال اور مستقبل کے لیے مفید ثابت ہوئیں، وہیں انہوں نے انسانوں کے لیے بے شمار مسائل بھی پیدا کیے۔اکیسویں صدی بھی اپنے بے شمار مسائل کے ساتھ کرہ ارض پر موجود انسان کو مسلسل آزما رہی ہے۔
نوآبادیاتی (colonialism) تسلط یہ گزشتہ صدیوں کی پیداوار ہے مگر اکیسویں صدی میں اس کے نتائج بڑے بڑے مسائل کی صورت میں سامنے آئے۔نوآبادیاتی نظام سے مراد ہے کہ یورپی اقوام نے افریقہ اور ایشیا پر حکمرانی کرتے ہوئے جو نظام ِحکومت رائج کیا، اسے نو آبادیاتی نظام کہتے ہیں۔اسی نظام کے تحت ہندوستانیوں سے انگریزوں نے بے تحاشا ٹیکس وصول کیا، جس سے انگریز خود تو ترقی کے زینہ پر گامزن ہو گئے لیکن ہندوستان کو پسماندگی کی جانب دھکیل دیا۔ نوآباد کاروں کی صورت میں انگریزوں کا برصغیر میں آنا نا صرف ثقافتی ،مذہبی اور اخلاقی اقدار پر اثر انداز ہوا بلکہ زبان رہن سہن تہذیب و تمدن سب کچھ غلامانہ بن گیا۔نو آبادیاتی پھیلائو مابعد نو آبادیات میں منتقل ہو گیا اور ذہنی غلامی، احساس کمتری، اپنی قومی زبان سے عدم دلچسپی بڑھتی گئی آج صورت حال یہ ہے کہ نوجوانوں کی بڑی تعداد کج فہمی کا شکار ہے۔ معاملہ صرف یہاں تک محدود نہیں ہے۔ ٹیکنالوجی کی اس نئی یلغار میں اخلاقی قدریں ختم ہوتی جا رہی ہیں۔ نئی نسل تک پہنچنے والا غیر اخلاقی مواد، نامکمل علم، مکمل شخصی آزادی کا تصور، مذہبی اقدار سے دوری معاشرے کی کھوکھلی جڑوں کو تیزی سے کھا رہی ہے۔
سامراجیت (imperialism) سامراج ان ترقی یافتہ ممالک کو کہتے ہیں، جہاں سرمایہ دارانہ نظام اپنی جدید شکل میں موجود ہو۔ اور وہاں کا سرمایہ دار طبقہ نہ صرف اپنے لوگوں کو لوٹتا ہو، بلکہ تیسری دنیا کے ممالک کو بھی لوٹ رہا ہو۔ سامراج امیر ممالک تیسری دنیا کے ممالک میں اپنے نمائندوں کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور وہاں پر قائم نیو کالونیل، کلاسیکل معاشی اور سیاسی ڈھانچے کے ذریعے عوام کو غلام بنا کر وسائل پرقبضہ کیا جاتا ہے۔ اس وقت عالمی امن کو تباہ کرنے میں سب سے بڑا ہاتھ ان سامراج ممالک اور نو آبادیاتی تسلط کا ہی ہے۔مسئلہ کشمیر ہویا ایک عرصہ دراز سے لہو لہان فلسطین ،یوکرین ہو شام ہو یمن ہو افغانستان ہو یا لبنان عالمی امن تباہ و برباد کیا گیا۔میانمار میں روہنگیا بحران ، ایتھوپیا ، جنوبی سوڈان ، کانگو ،صومالیہ ،نائجیریا میں جاری خانہ جنگی ،ہر جگہ انسانوں کا خون کیا گیا۔مسلح تنازعات کے ساتھ ہی ماحولیاتی ا?لودگی کے سبب موسمیاتی تبدیلی اور قدرتی آفات کا سامنا بھی اکیسویں صدی کے بڑے مسائل میں شامل ہے۔ شدید گرمی کی لہریں، تیزی سے پگھلتے گلیشیر، بارشیں، جنگلات کا کٹاؤ، گلوبل وارمنگ ، سیلاب اور زلزلے تباہی مچا رہے ہیں۔ قحط کے اسباب میں قدرتی آفات، انتہائی شدید موسم، مسلح تنازعات، خوراک کی قیمتوں میں اضافہ، متاثرہ لوگوں تک مدد کی رسائی کا فقدان یہ سب عوامل آج واضح طور پر عالمی سطح پر موجود ہیں۔
کمیونزم، سوشلزم، سیکولرازم، ماڈرن ازم ،کیپٹلزم،ہم جنس پرستی کا فتنہ ، اپنی مرضی سے جنس بدلنا ،نکاح کے بغیر جنسی تعلق ،جنسی بے راہ روی ،رحمِ مادر کا اجرت پرحصول ،مصنوعی طریقہ ہائے تولید ، اسپرم بینک،بوڑھوں کے عافیت کدے ، چہروں کی پلاسٹک سرجری ، قادیانیت ،الحاد پرستی، ملحدانہ سوچ اور نظریات ،ایک طرف تو گھریلوتشدد سہتی عورتیں تو دوسری طرف فیمنزم کی آڑ میں سڑکو ں پر جاگی جاگی عورت جاگی کے نام پر ہاتھوں میں بیہودہ پلے کارڈز پکڑے نعرے لگاتی خواتین ، خطرے سے دوچار خاندانی نظام اور عائلی زندگی ،تعلیمی نظام ، طبقاتی تضاد ،مادیت پرستی اور روحانیت ، ففتھ جنریشن وار، قرآن سوزی اور توہینِ رسالت سے بین المذاہب ہم آہنگی کو لاحق خطرات ،غربت،جہالت ،بے روزگاری ،مہنگائی ، سود خوری ، رشوت ، کرپشن یہ سارے اکیسویں صدی کے وہ مسائل ہیں جنہوں نے موجودہ انسان کو تحفے میں ان گنت فتنے دیئے۔ مگر اسلام نے سیرت النبیؐ سے بڑی خوبصورتی سے ان فتنوں ان مسائل کا حل آج سے کئی سو سال پہلے ہی پیش کر دیا جس کو آج ہم بھلا کر مسائل اور ذلت و رسوائی کا شکار ہیں۔
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور زندگی گزارنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی حیاتِ مبارکہ ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے چودہ سو سال پہلے ہی ہمارے لیے معاشی ، معاشرتی ،سیاسی ، مذہبی ، سماجی زندگی گزارنے کے جو اصول واضح کیے تھے وہ آج بھی امن ِ عالم اور موجودہ مسائل کے حل کے لیے ہنوز ضروری ہیں ،اور تاقیامت وہ ہی اصول قابلِ تقلید رہیں گے۔اس وقت پوری دنیا میں بیانیے کی سرد جنگ ہو یا ہتھیار اور بارود سے خون میں نہائے انسان ہوں ہر چند کہ دنیا امن کی تلاش میں ہے اور امن کا درس تو دنیا کی صرف ایک ہی ہستی کی تعلیمات میں پوشیدہ ہے۔آ پ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے خطبہ حج الوداع کے موقع پر صاف اعلان کیا کہ تمہارا خون تمہارا مال ایک دوسرے کے لیے حرام ہے جس طرح یہ دن یہ شہر قابل احترام ہے۔جرائم کے انسداد اور جان ومال کے تحفظ کے لیے آپ نے لوگوں میں ایک دوسرے کے حقوق کا احترام اور ان کی ادائیگی کی فکر پیدا کی، اور آخرت میں جوابدہی کا احساس پیدا کیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و نے دنیا سے غربت کے خاتمے کے لیے زکوٰۃ کا نظام قائم کیا ،اس سے ہٹ کر غریب رشتہ داروں، پڑوسیوں اور ضرورت مند انسانوں کی حاجت براری کی تلقین فرمائی، یتیموں اور بیوائوں کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کی، اگر صحیح معنی میں سارے صاحب نصاب مسلمان اپنے مالوں کی زکوٰۃ نکالنے لگیں تو امت مسلمہ کا کوئی فرد بھوکا نہیں رہے گا، نبی کی ان تعلیمات کو اگر دنیا کے سارے انسان اپنا لیں تو غربت کے خاتمہ میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔
معاشی بحران کے خاتمے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے بدعنوانی ، کرپشن ،سود کے خاتمے کو ضروری قرار دیا فرمایا,’’سود کا ایک درہم جو آدمی کو ملتا ہے اس کے 36 بار زنا کرنے سے زیادہ برا ہے۔اسلام نے معاشرے میں عورت کی عزت کی بلندی اور اس کے سماجی، معاشی، قانونی، عائلی اور اخلاقی حقوق کا تعین و تحفظ کر کے حیثیت نسواں کے مسئلہ کا ایک متوازن حل دیا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرآن و سنت کے ذریعے بنی نوع انسان کو یہ ہدایت فرمائی ہے۔آپ نے فرمایا ’’ان (عورتوں) کی عزت، عزت والا ہی کرتا ہے اور ان سے توہین آمیز سلوک وہی کرتا ہے جو خود ذلیل (اور کمینہ) ہو۔‘‘
اسلام نے ماحولیاتی صحت کے لئے صفائی اور شجرکاری کے احکام صادر فرما کر اس مسئلہ کے حل کی واضح بنیاد فراہم کردی ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ اس امر کا عملی نمونہ نظر آتی ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شجرکاری کو صدقہ قرار دیا اور حکم فرمایا کہ شجرکاری کرو خواہ روز قیامت میں ہی ایک درخت لگانے کی فرصت مل جائے۔
الغرض سیرت النبی کی روشنی میں نا صرف اکیسویں صدی بلکہ گزری ہوئی تمام صدیوں کے تمام چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے مسائل کا حل پوشیدہ ہے بس اْس حل کو تلاشنے کی ضرورت ہے سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کو مشعل راہ بنانے کی ضرورت ہے۔ تا کہ دنیا میں محبت قائم ہو امن کا بول بالا ہو، خوشحالی دنیا پر حکومت کرے۔
لوٹ جا عہد نبی کی سمت اے رفتارِ جہاں
میری درماندگی کو ارتقاء درکار ہے