چوہدری منور انجم
نقطہ نظر
بلاول کی لاہور سے جیت یقینی کیوں؟
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو لاہور کو ایک بار پھر پاکستان پیپلز پارٹی کا قلعہ بنانے کے لئے خود میدان عمل میں اتر چکے ہیں۔ لاہور سے پاکستان پارٹی کی ابتدا ہوئی تھی اس لے لاہور پاکستان پیپلز پارٹی کی جنم بھومی بھی ہے اس لئے اس شہر کو شہر بھٹو بنانا پارٹی کے ہر کارکن کی ذمہ داری اور فرض بھی ہے۔ اہل لاہور نے کافی عرصے کے بعد لاہور کو پیپلز پارٹی کے بینر پینا فیلیکس سے سجا دیکھا ہے جبکہ گاڑیوں موٹر سائکلوں اور رکشوں پر پارٹی کے جھنڈے نظر آرہے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ بھٹو کی محبت کبھی بھی لاہوریوں کے دل سے نہیں نکلی ،بھٹو کے نواسے کا جس طرح والہانہ استقبال ہو رہا ہے یہ لاہوریوں کی بے پناہ محبت کا ثبوت ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی ہی واحد سیاسی اور قومی جماعت ہے جس کا گھر حقیقی طور پر لاہور ہی ہے کیوں کہ لاہور اس کی جنم بھومی ہے۔لاہور نے جو محبت اور عقیدت شہید ذوالفقار علی بھٹو اور شہید بی بی کی جھولی میں ڈالی وہ ملک کے کسی اور رہنما کے حصے میں نہیں آئی۔ 70ء کے انتخابات ہوں یا پھر 70ء اور 80ء کی دہائی،قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو شہید کے جیالوں کا ضیاء الحقی آمریت کیخلاف قربانیوں کی داستان یا پھر 1986ء میں اہل لاہور کا شہید بینظیر بھٹو کا استقبال ، لاہور نے بھٹو خاندان کی عقیدت اور محبت میں کوئی کمی نہیں آنے دی۔ اہل لاہور نے وہی محبت ایک بار پھر تازہ کرتے ہوئے بلاول کو وہ احترام اور عزت دی ہے جس کی مثال نہیں ملتی۔ چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو لاہور کے ایک ایسے حلقے سے انتخاب لڑ رہے ہیں جہاں پیپلز پارٹی کیلئے میدان کافی سازگار ہے اور یہ حلقہ متوسط طبقے کی بھرپور نمائندگی کرتا ہے۔ گزشتہ ضمنی انتخاب میں لاہور کے اسی حلقے سے اسلم گل نے 34ہزار ووٹ لے کر یہ بات ثابت کردی تھی کہ لاہور میں پی پی پی آج بھی زندہ ہے۔ چیئرمین بلاول بھٹو کا اس حلقے سے انتخابات میں حصہ لینا پسے ہوئے عوام کے لئے بھی ایک پیغام ہے کہ اب ان کی مشکلوں اور مصیبتوں کے دن ختم ہونے کو ہیں جس کی مثال لاہور کے عوام ہیں جو بلاول بھٹو سے زیادہ خود مہم چلارہے ہیں۔ یہ حلقہ پاکستان میں اقلیتی برادری کا گڑھ بھی ہے جن کا ووٹ بنک موجود ہے جن کے گھروں اور گرجاگھروں میں بلاول نے جا کر انہیں اپنایت کا احساس دلایا ہے۔ مسیحی بھائیوں کا ووٹ بلاول بھٹو کو اس حلقے سے جتوانے میں فیصلہ کن کردار ادا کرے گا۔ دوسری جانب اس حلقے میں غریب اور متوسط طبقے کے لوگ رہتے ہیں جو کسی بھی جماعت پر پی پی پی کو فوقیت دیتے ہیں جس کی وجہ شہید ذولفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں اس حلقے کے لاکھوں پسمائندہ اور غریب طبقے کے افراد کے لئے چھت کی فراہمی جس میں وہ آج باعزت طریقے سے اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں۔
این اے 127 کا شمار لاہور کے اہم سیاسی حلقوں میں ہوتا ہے جہاں سے اس بار بلاول بھٹو الیکشن لڑ رہے ہیں۔ قومی اسمبلی کے اس ایک حلقے میں 5 صوبائی اسمبلی کی نشستیں جن میں پی پی 157، 160، 161، 162، 163 شامل ہیں میاں مصباح الرحمن اور فیصل میر بھی صوبائی الیکشن اسی حلقے سے لڑ رہے ہیں۔حلقہ این اے 127 کی کل 9 لاکھ 72 ہزار آبادی میں سے 5 لاکھ 27 ہزار رجسٹرڈ ووٹرز ہیں۔ ماڈل ٹاؤن، بہار کالونی، قینچی، چونگی امرسدھو کوٹ لکھپت جیسے علاقے بھی اس حلقے میں شامل ہیں۔ یہاں کے کم ترقی یافتہ علاقے زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم رہے ہیں۔ ووٹرز کا کہنا ہے کہ مہنگائی اور بے روزگاری نے بھی عوام کا جینا دو بھر کر رکھا ہے جس کی طرف آنے والی حکومت کو توجہ دینا ہوگی۔ طاہر القادری کی جماعت پاکستان عوامی تحریک اور سابق گورنر پنجاب چوہدری غلام سرور نے بھی عام انتخابات میں این اے 127 سے بلاول بھٹو زرداری کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے حق میں جلسے کرنے کا بھی اعلان کیا ہے جو ایک خوش آئند بات ہے۔
جبکہ لاہور سے پاکستان پیپلز پارٹی کے مختلف عہدے داروں اور کارکنوں کا کہنا ہے کہ سارا لاہور بلاول کے ساتھ کھڑا ہے‘ این اے 127سے جیت پیپلز پارٹی کے حصے میں آئے گی،ان کا کہنا تھا کہ بلاول کی قیادت میں ایسا پاکستان بنے گا جو خوشحال ہو گا، جہاں امن ہو گا، قانون سب کیلئے برابر ہوگا۔ عوام پیپلز پارٹی کو ووٹ دے کر کامیاب کرائیں گے تو پھر عوام کے مسائل ان کے گھر کی دہلیز پر ہی حل ہوں گے۔ اہل لاہور اب ایک خاندان کی حکمرانی ختم کرنے پر تیار ہو چکے ہیں۔قوم ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کیلئے تیر پر ہی مہر لگائے گی۔
پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور سے گذشتہ کئی انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) صوبائی یا قومی اسمبلی کی کوئی نشست حاصل نہیں کر سکی اور اس بار مسلم لیگ ن کے گڑھ سمجھے جانے والے لاہور میں پی پی پی نے اپنے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو میدان میں اتار دیا ہے جس سے اس بات کا بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی لاہور کو کس قدر سنجیدگی سے لے رہی ہے۔پیپلز پارٹی کی جانب سے قومی اسمبلی کے حلقے 127 میں بلاول بھٹو زرداری کی انتخابی مہم کئی دن پہلے سے شروع کر دی گئی تھی۔ اس حلقے سے کاغذات نامزدگی منظور ہونے کے بعد انتخابی مہم کا باقاعدہ آغاز بھی بلاول کی قیادت میں ہی کیا گیا تھا اور اب یہ عالم ہے کہ لاہوریے بلاول کے ساتھ شانے سے شانہ ملائے ہمرقاب ہو چکے ہیں پاکستان پیپلز پارٹی کے درینہ کارکنوں اور مرکزی لیڈروں کا لاہور امتحان بھی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کا لاہور سے انتخابات میں حصہ لینا پنجاب کی سیاست میں آنیوالے کئی سالوں کیلئے حیران کن نتائج دے گا۔
تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اس حلقے میں پی ٹی آئی کے دور میں ہونے والے ضمنی الیکشن میں پی پی پی کے امیدوار اسلم گل کو باقی حلقوں کی نسبت سب سے زیادہ 36 ہزار ووٹ ملے تھے۔ ’اب بلاول یہاں سے خود الیکشن لڑرہے ہیں ان کی کامیابی یقینی اس لئے بھی ہے کہ، غریب آبادیوں اور مسیحی ووٹ پی پی پی کو ملیں گے۔ تجزیہ نگاروں کی رائے کے مطابق: ’یہ تاثر درست نہیں ہے کہ لاہور مسلم لیگ ن کا گڑھ ہے کیونکہ بھٹو شہید کے دور میں لاہور سے تمام نشستیں پی پی پی نے جیتی تھیں۔ اس کے بعد بھی پی پی پی کئی بار لاہور میں نشستیں جیت چکی ہے۔ تجزیہ نگاروں کے خیال میں: ’ٹاؤن شپ، بہار کالونی، کوٹ لکھپت، گارڈن ٹاؤن اور کچی آبادیوں پر مشتمل اس حلقے میں پیپلز پارٹی کے ووٹرز کی تعداد دیگر حلقوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔ مسلم لیگ ن مخالف پی ٹی آئی ووٹرز بھی بلاول کو ووٹ دیں گے۔ پی پی پی کے کارکن بھی جیت کے لئے پر عزم ہیں ان کا کہنا ہے کہ ہم بھٹو کا نظریہ اور عوام کی خدمت کا جذبہ رکھتے ہیں اور اسی کے ذریعے کامیابی حاصل کریں گے۔ یہاں بلاول صاحب کو جو پذیرائی مل رہی ہے وہ بے مثال ہے، لوگ خود ہمیں بلا کر شمولیت اختیار کر رہے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ اس بار ایک لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کر کے اس نشست کو جیت کر لاہور اور پنجاب کو دوبارہ پیپلز پارٹی کا قلعہ بنائیں گے۔