چیف جسٹس کا کلاشنکوف کلچر کے خاتمے پر زور


چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ پاکستان سے کلاشنکوف کلچر کو ختم کرنا ہوگا۔منشیات اور کلاشنکوف نے پاکستان کو تباہ کر دیا، اسطرح کالے شیشے لگا کر بڑی بڑی گاڑیوں میں کلاشنکوف لیکر دنیا میں کہیں کوئی نہیں گھومتا۔ اسلام آباد میں کلاشنکوف لیکر گھروں کے باہر گارڈ کھڑے ہیں۔ 
    پاکستان میں منشیات اور کلاشن کوف کلچر 70ء کی دہائی میں افغانستان سے  پاکستان آنے والے مہاجرین کے ساتھ آیا۔منشیات نے نئی نسل کو تباہ کر کے رکھ دیا اور کلاشن کوف کلچر میں پاکستان نے بد امنی کو فروغ دیا۔جہاں کلاشنکوف کلچر نے پاکستان کا امن برباد کرنے میں کردار ادا کیا وہیں یہ ایک سٹیٹس سمبل اور دوسروں پر خوف طاری کرنے کا موجب بھی بنا۔چیف جسٹس نے گذشتہ روز ایک کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے کہ کالے شیشے کے ساتھ لوگ کلاشنکوف لیکر جاتے ہیں پولیس کی ان سے پوچھنے کی ہمت نہیں ہوتی، کیسے پتہ ہو گا کلاشنکوف والے دہشت گرد تھے یا کوئی اور تھے؟ کلاشن کوف کلچر سے جہاں یہ ساری خرافات در آئیں وہیں پہ لوگ اس کو اپنی حفاظت کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں مگر یہ کوئی واحد ہتھیار نہیں ہے جس سے گھر یا دفاتر کی گارڈز کے ذریعے حفاظت کی جا سکے۔اس جیسا دیگر کارآمداسلحہ بھی موجود ہے۔سکولوں کالجوں دیگر اداروں کی حتی کہ گھروں کی حفاظت بھی لازم ہے۔ لوگ تو اپنے گھروں کی حفاظت کے لیے محلوں کے سامنے بیریئر بھی لگا دیتے ہیں۔ پاکستان میں اگر امن و امان کا مسئلہ نہ ہو تو نہ ایسے بیریئر کی اور نہ ہی کسی کو کلاشن کو ف بندوق تھما کر گیٹ پر کھڑا کرنے کی ضرورت رہے۔یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر شہری کی حفاظت اور چادر اور چار دیواری کا تحفظ یقینی بنائے۔چیف جسٹس صاحب اس حوالے سے بہترین کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اداروں میں اگر کوئی خامیاں پائی جاتی ہیں تو چیف صاحب ان کی نشاندہی کر کے ان کو دور کروائیں تاکہ کلاشنکوف کلچر سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکے۔ ویسے تو افغان مجاہدین پاکستان سے واپس جا رہے ہیں لیکن ان کی چھوڑی ہوئی خرابات میں سے منشیات اور کلاشن کوف کلچر کسی نہ کسی حد تک یہیں پہ رہ جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ اس سے کب اور کیسے نجات ملے گی؟

ای پیپر دی نیشن