ڈاکٹر فاطمہ حسن اور ان کہی کادکھ

ہم منیرنیازی کی شاعری کے معتقداوران کی رندانہ طبع کے عاشق ہیں،ایک مشاعرے میں مرحوم نے شعروسخن کی دنیاکی چند معتبر شاعرات کا ذکر کیا، ان میں ڈاکٹر فاطمہ حسن کا نام نمایاں تھا۔منیرنیازی ان کی شاعری کے مداح تھے۔انھی دنوںڈاکٹرصاحبہ کی ایک غزل کا ادبی دنیامیں خاصا چرچا تھا۔یہ سماجی رابطوں کی ویب گاہوں ( فیس بک، ٹویٹر، انسٹاگرام، واٹس ایپ وغیرہ)کا زمانہ نہیں تھا،کوئی بھی شعربڑی تپسیا کے بعد قبولیت عام حاصل کرتا تھا۔فاطمہ حسن کے شعری مجموعے ’’دستک سے در کافاصلہ‘‘ میں شامل اس غزل کا نیازی صاحب نے بطورخاص ذکر کیا۔مذکورہ غزل کے  چند شعر ملاحظہ کیجیے:
کیاکہوں اس سے کہ جوبات سمجھتا ہی نہیں
وہ توملنے کو ملاقات سمجھتا ہی نہیں
رات پروائی نے اس کوبھی جگایا ہوگا
رات کیوں کٹ نہ سکی رات سمجھتا ہی نہیں
ہم نے دیکھا ہے فقط خواب کھلی آنکھوں سے
خواب تھی وصل کی وہ رات سمجھتا ہی نہیں
ڈاکٹر فاطمہ حسن(سیدہ انیس فاطمہ زیدی) کاتعارف صرف شاعری نہیں۔ان کی ایک منفرد ادبی پہچان ہے،شاعری کے علاوہ افسانہ نگارہیں، تنقید وتحقیق کی دنیامیں بھی نام کمایا۔ان کے چار شعری مجموعے’’بہتے ہوئے پھول (1977ء)‘‘، ’’دستک سے درکافاصلہ‘‘ (1993ء)،’’ یادیں بھی اب خواب ہوئیں‘‘ (2005ء)،’’فاصلوں سے ماورا‘‘(2019ء)کے عنوان سے منظرعام پرآچکے ہیں۔انکے افسانوں کا مجموعہ’’کہانیاں گم ہوجاتی ہیں‘‘(2000ء) میں شائع ہوا۔’’کتاب دوستاں‘‘ (مجموعہ مضامین)، ’’زاہدہ خاتون شیروانیہ: شخصیت اورفن‘‘ (ڈاکٹریٹ کا مقالہ) اور’’اردو اعرات اور نسائی شعور‘‘ (2021ء) ان کا نثری کام ہے۔ فاطمہ حسن صاحبہ کا اصل اعزاز انجمن ترقی اردو پاکستان کے معتمد کے عہدے پرفائز ہونا ہے۔ انجمن سے وابستگی کے دورمیں انھوں نے اصل معنوں میں اردو ادب کی خدمت کی۔برصغیر پاک وہندکی اس قدیم ادبی اورثقافتی انجمن کی بنیاد سرسیداحمدخاں کے رفیق کار سیدمہدی علی خاں(نواب محسن الملک )اوران کے ساتھیوں نے رکھی۔علامہ شبلی نعمانی،حبیب الرحمان شیروانی، مولانا حسرت موہانی،عبدالرب نشتر ،ڈاکٹرشہیداللہ، سرغلام حسین ہدایت اللہ اورپیرحسام الدین راشدی جیسی شخصیات نے انجمن کے پیغام کی ترویج وترقی کے لیے کاوشیں کیں، بابائے اردو مولوی عبدالحق اس کے معتمد بنے تو انجمن ایک تناوردرخت بن چکی تھی،مولوی صاحب کے وصال کے بعد جمیل الدین عالی نے مشاہیر کی عمدہ روایات کو زندہ رکھا۔ڈاکٹرفاطمہ حسن نے اپنے دور میں انجمن کی سنہری روایات کو زندہ رکھا۔ان کے دور میں اردو باغ کے قیام کے علاوہ بہت سی اہم کتابوں کی اشاعت کے امور بھی شامل تھے۔ فاطمہ حسن کوان کی خدمات کی ستائش کے طور پرحکومت پاکستان کی جانب سے تمغہ امتیاز سے نوازاگیا۔ فاطمہ حسن اعلیٰ اخلاق سے مزین ایک پختہ کار شاعرہ ہیں۔ہم میں ناقابل اعتراض حد تک حسِ جمال ہونے کے باوجود کبھی کبھا رایک’’عورتم بیزار‘‘شخص برآمدہوتاہے ، ہم نے اپنی زندگی میں خود سے منسلک عورتوں کے حقوق پورے کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ ہماری کم علمی پرمہمول کیاجائے گا کہ حقوق نسواں کے نعرے بعض اوقات ہمیں خوفزدہ بھی کردیتے ہیں۔البتہ یہ اعتراف کیے بنا چارہ نہیں کہ فاطمہ حسن کی شاعری میں موجود نسائی شعورنے ایک جہانِ حیرت کی سیرکروادی۔ اپنے حقوق کی جنگ نعروں کی بجائے مکالمے سے بھی لڑی جاسکتی ہے۔ایک بے روح نعرے سے جان دار سرگوشی زیادہ کارآمدثابت ہوسکتی ہے۔فاطمہ حسن نے اسی سے کام لیا ہے۔یہی ان کی شاعری کی روح ہے۔ چندہفتے پہلے اسلام آباد میں ’’علامہ محمداقبال اور اکیسویں صدی ‘‘ کے عنوان سے ترکی کے یونس ایمرے انسٹی ٹیوٹ اور شعبہ اقبالیات علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے اشتراک سے منعقدہ ایک بین الا قوامی کانفرنس میںہونے والی ملاقات میںان کی سنجیدگی اور وضع داری کا علم ہوا۔ معاصر علمی وادبی موضوعات پرگفتگو ہوئی۔ڈاکٹرصاحبہ سقوط ڈھاکہ کے پردرد سانحے کی چشم دید گواہ ہیں۔باتوں باتوں میںجب ہمارے مشترکہ محبوب منیرنیازی کا نام آیا توانھوں نے بڑی محبت کے ساتھ ان تذکرہ کیا۔پھرکیا تھا ،نیازی صاحب کاذکر ہوا اور خوب ہوا ، آپ نے فیض احمد فیض کی مشہور نظم ’’ رقیب سے‘‘  تو سنی ہوگی:
آکے وابستہ ہیں اس حسن کی یادیں تجھ سے
جس نے اس دل کو پری خانہ بنارکھاتھا
سرسری طور پر فاطمہ حسن کی اس غزل کاذکر کیا ، جس کی تعریف منیرنیازی مرحوم نے کی تھی ۔ ساتھ یہ بھی عرض کیاکہ آپ کی اس غزل کی زمین میں ہم نے بھی ایک زمانے میں تک بندی کی تھی۔اب کیا تھا ،ڈاکٹر صاحبہ ہم سے باربار وہی غزل سنانے کی فرمائش کرنے لگیں ۔ایک سیشن کے دوران میںکاغذکے ایک چھوٹے سے پرزے پر چنداشعار لکھ کر پیش کردئیے۔ ہم سمجھے کہ بات آئی گئی ہوئی لیکن نہیں جناب یونیورسٹی کے ایگزیکٹو کیفے ٹیریا میں ایک مختصر سی(غیررسمی) شعری محفل منعقد ہوئی ، جس کی صدارت ڈاکٹرفاطمہ حسن نے کی۔مہمان خصوصی ڈاکٹر بصیرہ عنبرین اور ڈاکٹر وحیدالرحمان خان تھے۔ڈاکٹر بصیرہ عنبرین کے نام سے اہل علم خوب آگاہ ہیں۔ اقبال شناسی کی دنیامیں ان کا نام اور کام بڑا محترم سمجھا جاتاہے ۔اقبال اکیڈمی لاہور کی صدرنشینی کے دنوںمیںان کی اعلیٰ انتظامی صلا حیتوں کا خوب اعتراف کیا گیا۔ڈاکٹر وحید الرحمان خان سے ہمارے تعلقات کی بہت سی جہتیں ہیں۔فی الحال یہی عرض کردینا کافی ہے کہ وہ ہمارے استاذگرامی ہیں۔اس مختصر سی نشست میں ہم سے بااصرار ہماری غزل سنی گئی۔آپ بھی چندشعر سن لیں:
جیسے لوگوں کے مفادات سمجھتا ہی نہیں
وہ مرے شہر کے حالات سمجھتا ہی نہیں
اس کو معلوم کہاں کیسے بچھڑتا ہے کوئی
وقت ِ رخصت کی روایات سمجھتا ہی نہیں
روزکہتا ہوں کہ دیوار کو اونچا کرلیں
میرا ہمسایہ مری بات سمجھتا ہی نہیں     
ہمارے جیسے کسی مبتدی کو بطور سامع اگر ایسے اہل نظر میسر آجائیں تو اس سے بڑا اعزاز اورکیاہوسکتا ہے۔یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا۔آج کے کالم کا مقصد تو ڈاکٹرفاطمہ حسن کے شعری کلیات ’’ان کہی بات کا دکھ‘‘کی توصیف کرنا تھا، لیکن اصل بات درمیان میں آتے آتے کہیں رہ گئی۔چلیں اس کاذکر پھر کبھی سہی۔

ای پیپر دی نیشن