مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کی ’’تحریک مزاحمت ‘‘

 بیگم تنویر لطیف (تمغہ امتیاز)

انتخابات کا بگل بج چکا ہے لیکن سیاسی عدم استحکام ، اندھی عقیدت و نفرت، انتشار اور تہمت طرازیوں کی مسموم فضاء میں ملک کے سنجیدہ طبقوں، دانشوروں اور محب وطن قوتوں کو تشکیک اور بداعتمادیوں کی دھول بٹھانے کے لئے خاموشی کے قفل کو  توڑ کر اپنا مثبت کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے تا کہ ملکی تاریخ کے اس اہم ترین قومی موڑ پر جذبات کے بڑھکتے ہوئے الاؤ میں امن اور رواداری اور نظم و نسق کی پاسداری کی فضاء قائم کی جا سکے۔ دشمن ہماری سیاسی بے قراریوںاور جارحانہ رویوں سے فائدہ اٹھا کر پوری منصوبہ بندی کے ساتھ مرحلہ وار ہماری صفوں کو درہم برہم کرنے پر تلا ہوا ہے۔ پہلے مرحلے میں سوشل میڈیا کے ذریعہ نوجوانوں کو ریاست پاکستان اور فوج کے خلاف بڑھکایا گیا، مایوسیاں اور نفرتیں پھیلائی گئیں۔ پھر سمندر پار پاکستانیوں کو جتھوں کی صورت میں منظم کر کے ۱۰ ڈاؤننگ سٹریٹ برطانیہ ، نیویارک اور یورپی یونین کے ملکوں میں مملکت پاکستان کے مقتدر اداروں اور شخصیات کے خلاف من گھڑت الزام تراشیوں ، تہمتوں اور گالی گلوچ کا طوفان برپا کر کے مادر وطن کا چہرہ داغدار کیا گیا۔ جب لوہا گر م ہو گیا اور ملک کی نڈھال قومی سیاست میں مزاحمت کا دم خم نہ رہا تو یکایک دوسرے مرحلے میں ایک ایسی زہرناک لہر اٹھی جس نے مقبوضہ کشمیر میں مظلوم کشمیریوں کی تحریک مزاحمت کی شکل اختیار کر لی۔ وادی کشمیر کے سب سے کم عمر خوبصورت مجاہد برہان وانی جن کے سینے پر اپنے بھائی کی شہادت کا تمغہ سجا تھا جدید انداز میں سوشل میڈیا پر تحریک کی صورت میں نوجوانوں کو منظم کر رہے تھے بھارتی فوج ان کے درپے تھی وہ گھنے جنگلوں میں جگہ بدل بدل کر اپنا پیغام پھیلا رہے تھے،  وہ نوجوان نسل کے ہیرو تھے اور دہلی کے ایوانوں میں زلزلہ برپا کر رہے تھے۔ کسی کی سمجھ میںکچھ نہیں آ رہا تھا کہ اچانک پاکستان میں سوشل میڈیا پر اپنے ملک کے خلاف بلاوجہ زہرناک پروپیگنڈہ کیوں شروع کیا گیا۔ دنیا میں صف اول کی بہترین افواج پاکستان جنہوں نے یو این مشنز میں اپنی پیشہ ورانہ اور اخلاقی برتری کی دھاک بٹھائی ان ہرزہ سرائیوں نے اپنی فوج کی اجتماعی ساکھ ، نظام عدل کی فولادی قوت، پارلیمنٹ کی اجتماعی دانش اور نظام حکومت چلانے والے شاندار اداروں اور بہترین دماغوں کو باآواز بلند سوقیانہ پروپیگنڈہ کی لپیٹ میں لے لیا۔ سب سے بڑا ظلم یہ کہ اہل کشمیر کی تاریخ ساز تحریک مزاحمت کے چربہ کے طور پر چوکوں چوراہوں میں ’’ہم لے کے رہیں گے آزادی، ہم چھین کے لیں گے آزادی، ہے حق ہمارا آزادی، ہم کیا چاہتے آزادی ‘‘ کے نعرے بغیر کسی تشریح وتوضیح کے ماتمی انداز میں پھیلا دئیے گئے۔ کسی کو معلوم نہیں کہ کونسی آزادی؟ ، کس سے آزادی، کیسی آزادی؟ بس ایک دلفریب نعرہ نابالغ بچوں اور نوجوانوں کے منہ میں ٹھونس کر مسئلہ کشمیر کی عالمی سطح پر تسلیم شدہ اور اقوام متحدہ کے پینل پر موجود تحریک مزاحمت سے ان کی جذباتی وابستگی کو انتہائی عیاری سے شفٹ کر دیا  
گیا اور اسی ماحول  میں بھارت نے 5 اگست 2019ء کو آئین کے آرٹیکل 370اور 35۔اے کو منسوخ کر کے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر کے وفاق میں ضم کر دیا ۔ اسلام آباد میں اللہ اللہ خیر سلہ کے علاوہ کچھ نہ ہوا ۔ انتخابات کے ماحول میں ہمارے پیارے لوگوں کو جن کی پہلی اور آخری متاع عزیز صرف پاکستان ہے بال سے باریک ان موشگافیوں کو سمجھنا چاہیے یہ دام ہم رنگ زمیں ہے۔ دنیا میں کوئی ملک ایسا نہیں ہے جو اہم ترین معاملات میں فوج کی چھتری حاصل نہ کر لے چہ جائیکہ پاک فوج ہر مشکل وقت میں لوگوں کی مدد کے لئے ہر دم تیار رہتی ہے۔ بھارتی فوج اخلاقی پستی کے اعتبار سے دنیا کی بدترین فوج ہے جو بھارت کے عدالتی نظام سے لے کر خارجہ امور تک دخیل ہے۔ 1990میں کنگن پوش پورہ کے گرلز ہائی سکول میں شب برات کی عبادت میں مصروف ۲۰۰ خواتین کی راجپوت رائفلز کے ہاتھوں بے حرمتی اور ۱۳ خواتین کے قتل کا مقدمہ کمشنرلولاب وجاہت حبیب اللہ کی مدعیت میں سرینگر ہائی کورٹ میں دائر کیا گیا جو آج 33برس کے بعد بھی راجپوت رائفلز کے وکیل کے ذریعہ فوج کے دباؤ پر حکم امتناعی کا شکار ہے۔ مقبول بٹ شہید اور افضل گورو کو بغیر کسی ثبوت اورشہادت کے تختہ دار پر چڑھا دیا گیا۔ اس عدالتی قتل کے خلاف سوائے ارون دھتی کے کسی نے آواز بلند نہ کی کیونکہ پس پردہ فوج پھر بھی کشمیر سے لے کر جھاڑ کھنڈ، اترپردیش، آسام، گجرات تک ہر جگہ فوج کے ہاتھوں قتل عام جاری ہے لیکن یہ ان کا اندرونی معاملہ ہے نہ انسانی حقوق کا چرچا نہ ظلم کی داستانیں بلکہ سبھی کچھ ریاست کی عملداری کے لئے جائز ہے لیکن پاکستان میں حقوق صرف ان فسادیوں کے ہیں جن پر مادر وطن کی مٹی پانی اور خوراک حرام ہونی چاہیے۔ 9 مئی 2023ء کو فوجی تنصیبات کو آگ لگانے والے شرپسند اور ان کے ماسٹر مائنڈ قومی مجرم ہیں جنہوں نے مادر وطن کے سر سے عظمت و توقیر کی چادر نوچی ہے۔ ان بے حمیت خواتین و حضرات نے ملک کو سوڈان بنانے کے لئے فوج سے ڈسپلن توڑنے کی اپیلیں کیں اور یو این ، یورپی یونین، اوآئی سی اور عالمی عدالت انصاف میں اپنی معصومیت اور انسانی حقوق کے لئے آہ و زاریاں کیں۔ حتیٰ کہ جتھہ بندیوں کے پروپیگنڈے کے ذریعہ پاکستانی قوم پوری دنیا میں تماشا بن کر رہ گئی۔ انہوں نے مسجد نبوی کو بھی نہ بخشا جہاں پرندے بھی احترام سے نیچی پرواز میں اڑتے ہیں۔ اپنے گھر کی سیاسی نفرتوں اور جھتہ بندیوں کی اس نئی بدعت نے مہذب ملکوں کے مقتدر حلقوں کو چونکا دیا ہے کیونکہ بد اخلاقی کے اس چلن سے ان ملکوں میں نقص امن کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے۔ ان تمام منفی اور غیر اخلاقی جارحانہ سرگرمیوں کے نتائج عالمی سطح پر منظر عام پر آنا شروع ہو جائیں گے لیکن اس بے توقیری کا بوجھ بھی مادر وطن پاکستان کو اٹھانا پڑے گا۔ بحیثت کشمیری میرا پاکستان کے نظام انتخاب میں ووٹ نہیں ہے لیکن پاکستان ہماری منزل عشق ہے جس کی بنیادوں میں ہمارے بزرگوں کا خون اور ہڈیاں دفن ہیں۔ پاکستان کے معصوم عوام نے بھی کشمیر سے وابستہ تکمیل پاکستان اور اسکی بقاء کی جدوجہد میں جتنا لہو نچھاور کیا ہے اسے اگر جمع کیا جائے تو خون کے کنویں بھر جائیں۔ڈر اس بات کا ہے کہ بدتمیزی کے اس ماحول میں یہ سب کچھ خس و خاشاک کی طرح نہ بہہ جائے اور ہماری رواداری اور باہمی احترام کی سیاست کو اپنی لپیٹ میں نہ لے لے۔ آزاد کشمیر اور پاک فوج یک جان ہیںاور کشمیر کی طویل ترین کنٹرول لائن پر سرحدی آبادی کے لوگ پاک فوج کے ساتھ مورچے بنا کر ڈٹے ہوئے ہیں اور آئے روز کی گولہ باری اور اشتعال انگیزی کے باوجود اپنے گھر چھوڑنے کے لئے تیار نہیں۔ بھارتی فوج اس تاک میں ہے کہ یہاں بھی ۹ مئی والی واردات ہو اور اس سرزمین کو غزہ کا مقتل بنانے کی ان کی آرزو پوری ہو۔ یہی وجہ ہے کہ میرے قلم سے بھی میرے جگر کا لہو ٹپک رہا ہے۔ سیاسی شعبدہ بازیاں قوموں کو کہاں سے کہاں پہنچا دیتی ہیں اس کا تصور بھی محال ہے۔ اندھی مقبولیت اور اندھی نفرت کے دائروں میں کئی ملک برباد ہوئے کیونکہ جذبات کو بھڑکانے والے شعبدہ باز عالمگیر شطرنج کی بساط پر خو د بھی لپیٹ لئے جاتے ہیں اور اپنے ملک کو بھی برسوں پیچھے لے جاتے ہیں۔ ہٹلرنے ایک اشارے سے جرمن پارلیمنٹ کو آگ لگوا دی اور پھر سائیبریا کے برفستان میں اپنی فوج کو دفن کروا کے اپنے پیچھے دیوار برلن کے دونوں طرف بین کرتی مائیں اور سر پٹختے بچے چھوڑ گیا۔ نپولین کہتاتھا ناکامی کا لفظ میر ی ڈکشنری میں نہیں لیکن اسی زعم میں واٹرلو کے میدان کی خاک چاٹنے پر مجبور ہوا۔ بشار الاسد 99فیصد اکثریت کی مقبولیت کے ساتھ تخت نشین ہے اور شام کے معصوم بچے امریکہ اور روس کے اڈوں سے برسائے ہوئے بارود میں مرتے وقت اللہ سے انصاف کی دہائیاں دے رہے ہیں اور بیوہ عورتوں، یتیموں سے بھری کشتیاں سمندر میں ڈوب رہی ہیں۔ شام کے ان بے گناہ شہریوں کو دنیا میں کہیں امان میسر نہیں۔
یوکرین کامقبول ترین حکمران اپنے ملک کے تزویراتی محل وقوع اور روس کے چھوڑے ہوئے ایٹمی اثاثوں کی طاقت سے ایک شاطر مشاق اور مدبر سیاستدان کی طرح سیاسی حکمت عملی کی مہارت کے ساتھ عالمی طاقتوں کی شطرنج پر بساط بچھائے رکھتا تو روس اور یورپی یونین دونوں قوتوںکے ساتھ اپنے مفادات سمیٹتے ہوئے اس ہولناک جنگ کو ٹال سکتا تھا اور دنیا بھر کو خوراک مہیا کرنے والا ہرا بھرا ، پرامن اور خوبصورت یوکرین آج آنسوؤں اور خاک و خون کی بجائے مسکراہٹیں اور خوشحالیاںبانٹ رہا ہوتا لیکن دنیا اور انسانیت کی بد قسمتی کہ گنجلک عالمی سیاست کا کھیل فنکاروں اور کھلاڑیوں کا میدان ہی نہ تھا۔ بڑے بڑے جغادری اور مقبول ترین سیاستدان عالم انسانیت کے لئے عذاب بنے ہوئے ہیں۔ یہی پاکستان کے ساتھ ہوتا رہا ہے بلکہ وطن عزیزکو سیاسی تجربات کی لیبارٹری بنا دیا گیا ہے۔ ہر دفعہ کوئی نہ کوئی طالع آزما ہمیں دھوکوں ، دکھوں اور حزیمتوں کی بھٹی میں جھونک کر ہاتھ تاپتا نظر آتا ہے۔
ابھی کل کی بات ہے لوگ الطاف حسین کو پیر سائیں مان کر چاند میں اس کا چہرہ تلاش کرتے تھے اور رات بھر اونگتے ہوئے بچوں کو گود میں لے کر خواتین و حضرات اس کی بے سروپا تقریروں پر سر دھنتے تھے۔ جو اس کفر سے انکار کرتے ان کی بوری بند لاشیںکوڑے کے ڈھیر پر ملتیں۔ اب ۹ مئی کے قومی المیے کے بعد اس اندھی عقیدت کا صرف ڈیزائن بدلا ہے۔ اس لئے پیارے پاکستانیوں کو اس دام ہم رنگ زمین سے بچ کر اپنے وطن عزیز کے مستقبل کا تعین کرنا چاہئیے ۔
کاش ہم شخصیت پرستی کے گناہ سے توبہ کر کے صرف اور صرف اپنے پیارے ہادی و رہنما رحمت العالمین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ اور دانش و بصیرت علی کرم اللہ وجہہ کے پرچم تلے جم ہو جائیں۔ انہی کے کردار سے روشنی لیکر اپنے ملک کو امن وعافیت کا گہوارہ بنانے کیلئے پولیس اور احتساب کمیشن کی بجائے اپنے کردار کی طاقت سے دنیا پر چھا جائیں ۔پروین شاکر نے خوب کہا ہے
تہمت لگا کے ماں پر جو دشمن سے داد لے
ایسے  سخن  ور  کو    مر  جانا  چاہیے 

ای پیپر دی نیشن