نیٹو سپلائی کی بحالی اور ممکنہ ردِ عمل!

امریکہ نے کہا ہے کہ نیٹو سپلائی بحالی کے بعد پاکستان کے ساتھ تعلقات میں پیشرفت ہو رہی ہے اور نیٹو سپلائی کی بحالی سے امریکہ کو افغانستان میں سامان کی آمد و رفت میں کروڑوں ڈالر کی بچت ہو گی پتہ چلا ہے کہ پاکستان کی طرف سے نیٹو سپلائی کی بندش سے امریکہ کو افغانستان میں اپنی فوجوں کو سامان رسد پہنچانے میں 100ملین ڈالر ہر ماہ اضافی خرچہ برداشت کرنا پڑ رہا تھا یہ بات اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ سلالہ چیک پوسٹ پر نیٹو فورسز کے حملے کے بعد حکومت پاکستان نے دینی، سیاسی اور سماجی حلقوں کے بڑھتے ہوئے دباﺅ کے پیش نظر آٹھ ماہ کے عرصہ تک نیٹو سپلائی کو بحال نہ کرکے امریکہ کو ”ٹف ٹائم“ دیا تھا اور اس اثناءمیں امریکہ کی تڑیوں کو بھی خاطر میں نہ لایا گیا تھا جس کے نتیجہ میں امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے پاکستانی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر سے سلالہ چیک پوسٹ کے حوالہ سے باضابطہ معذرت کی جس کے بعد برف پگھلی اور نیٹو سپلائی بحال ہوئی، یہ حقیقت اپنی جگہ درست ہے کہ پاکستان امریکہ اور دنیا کے دیگر ممالک سے ہمیشہ کیلئے اپنے تعلقات میں سرد مہری کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا اور نہ ہی ان سے اپنی راہیں جدا کر سکتا تھا بحیثیت تجزیہ نگار راقم نے بہت قبل عرض کر دیا تھا کہ پاکستان کو بالآخر نیٹو سپلائی کو بحال کرنا ہی ہو گا کیونکہ قرائن بتا رہے تھے کہ ہم زیادہ عرصے تک عالمی دباﺅ برداشت نہ کر پائیں گے مگر افسوس اس بات کا ہے کہ اگر ہم نے اپنے گھٹنے یونہی ٹیکنے تھے تو پھر اتنی تاخیر کیوں کی؟ دانشمندی کا تقاضا یہ تھا کہ ہم چاروں شانے چت ہونے سے پہلے ڈرون حملوں سمیت قومی خود مختاری، ملکی استحکام اور بقاءسے مربوط اپنے مطالبات منواتے مگر ہم ایسا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ ابھی نیٹو سپلائی کو بحال ہوئے پورے 48گھنٹے بھی نہ ہوئے تھے کہ میرانشاہ کے علاقے دتہ خیل میں امریکی جاسوس طیاروں کے دو ڈرون حملوں میں دو درجن کے قریب بے گناہ شہری ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے ہیں۔ یاد رہے انہی خدشات کے پیش نظر ہم کالم نویس اس امر کی دھائی دیتے چلے آ رہے تھے کہ نیٹو سپلائی کی بحالی کا فیصلہ ملکی استحکام اور قومی مفاد کو ملحوظ رکھتے ہوئے ہونا چاہیے تاکہ امریکہ کی بڑھتی ہوئی چیرہ دستیوں کو لگام دی جا سکے مگر المیے کی بات یہ ہے کہ ہم نے یہ فیصلہ کرتے ہوئے اپنی داخلی سلامتی کو ایک بار پھر امریکہ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے جس پر جتنا دکھ کیا جائے کم ہے سوال یہ اٹھتا ہے کہ ہم کب تک اپنی پوری حکمت عملیوں کے نتیجہ میں اپنے داخلی استحکام میں چھید کراتے رہیں گے؟ ہماری معیشت پہلے ہی آخری ہچکیاں لے رہی ہے، جس پر پے در پے ہونے والے ڈرون حملے ہمارے داخلی استحکام کو تہس نہس کرنے میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں جس پر زیادہ کہنے کی ضرورت نہ ہے اس لئے کہ ڈرون حملوں کا براہ راست اثر ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں پر شب خون مارنے کی صورت میں سامنے آتا ہے، امریکہ کی چانکیائی سیاست کو بھانپ کر نیٹو سپلائی کا فیصلہ کرنا چاہیے تھا جبکہ ہم نے پہلے ہی اس نام نہاد جنگ میں امریکہ کا فرنٹ لائن حلیف بن کر اپنے ملک کی چولیں ہلا لی ہیں اور اپنے قومی وقار کا ستیا ناس کر لیا ہے راقم نے اکثر یہ بات کہی ہے کہ امریکہ افغانستان میں اپنے مفادات کی جنگ لڑ رہا ہے جس میں وہ پسپائی کا شکار ہے زمینی جنگ وہ ہار چکا ہے اور اس کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکے جا چکے ہیں اسی لئے وہ ڈرون حملوں کے ذریعے خون کی ہولی کھیلنے میں مصروف ہے اور ہمارے بیگناہ شہریوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ رہا ہے جس پر ہم مذمت کی قرار دادوں سے ایک انچ بھی آگے نہ بڑھ سکے ہیں۔ یہ وقت امریکہ سے خوف زدہ ہونے کا نہیں بلکہ اصولوں پر ڈٹ کر معاملات کو طے کرنے کا ہے۔ آزاد اور خود مختار قومیں سوچ سمجھ کر فیصلے کرتی ہیں اور قومی و ملکی بقاءاور اس کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کو مقدم جانتی ہیں توقع کی جاتی ہے کہ ہمارے ارباب اختیار اس بارے میں ضرور سوچ بچار کریں گے۔

ای پیپر دی نیشن