بہ نیم غمزہ نیر زیدہ دریغ از تو

اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ناگفتہ بہ حالات و واقعات کے پیش نظر ذہن میں یہ خیال ابھر کر سامنے آتا ہے کہ وہ شخصیات سمندر کی اتھا گہرائیوں، کوہ ہمالیہ کی بلند و بالا چوٹیوں اور قومی گلستانوں اور نخلستانوں سے مزین اٹل اور غیر متزلزل اگر نہ ہوتیں تو آج اسلامیانِ پاکستان 65برسوں سے آزادی و خودمختاری کی نعمتوں سے فیض یاب نہ ہوئے ہوتے، بدقسمت ہے یہ قوم کہ جسے یہ بھی معلوم نہیں کہ 9جولائی مادرِ ملت فاطمہ جناح کا یوم وفات ہے برصغیر کی دل گداز تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ حضرت قائد اعظم کو اگر مادر ملت فاطمہ جناح کا سہارا نصیب نہ ہوتا تو گھریلو محاذ پر وہ بہت بڑا خلاءمحسوس کرتے۔ سیاسی اور قومی معاملات میں تنہائی کا شکار ہو جاتے، ان کے لئے مسلم لیگ اور اسلامیاں ہند کو اور ان کے معاملات کو سنبھالنا مشکل ہو جاتا اور یہ کہا جاتا ہے کہ حضرت قائد اعظم کو چومکھی جنگ لڑنا پڑی جو چومکھی جنگ نہیں تھی بلکہ میرے نقطہ نظر سے اور میرے معمولی مطالعے کے مطابق وہ جنگ آٹھ مکھی جنگ تھی اور آج اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے حکومتی ایوانوں میں کلغی دار مرغوں کی طرح اکڑ کر چلنے والے شاید یہ بھول گئے ہیں کہ وہ مادر ملت فاطمہ جناح جن کے یوم وفات پر کسی کے سر میں غیرت وہ حمیت کی جوں تک نہیں رینگی کہ ان کی یاد میں یہ نمائندگان نام نہاد سیاسی جماعتیں اور ان کے عزت مآب بزرجمہران کرام اپنے بانی پاکستان کی بہن مجاہدہ پاکستان اور مجاہدہ اسلام کے یوم وفات پر فاتحہ خوانی کا اہتمام ہی کر لیں۔ لاہور میں نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے زیراہتمام مادر ملت فاطمہ جناح کو ایصال ثواب کے لئے بہت بڑی تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں نظریاتی سمر سکول کے بچوں نے بھرپور حصہ لیا اور قابل صد احترام خواتین و حضرات نے اپنا اپنا اظہار خیال بھی فرمایا۔ مجید نظامی صاحب نے اپنے خطبے میں حضرت فاطمہ جناح کی اعلیٰ ترین قومی اور سیاسی خدمات کے حوالے سے ایک بھرپور تاریخی جائزہ فرمایا اور کہا کہ اگر محترمہ فاطمہ جناح نہ ہوتیں اور حضرت قائداعظم کی خدمت کیلئے اپنے میڈیکل پروفیشن کو خیر باد نہ کہتیں تو ممکن ہے کہ پاکستان بھی معرض وجود میں نہ آتا۔ سوائے نوائے وقت کے ملک کے طول و عرض میں شائع ہونے والے اخبارات اور الیکٹرونک میڈیا میں کہیں خال خال بھی کوئی خبر نہیں ملی کہ 9 جولائیمادر ملت فاطمہ جناح کا یوم وفات ہے کیا ملکی، قومی اور نظریاتی فرائض انجام دینا صرف ایوان کارکنان تحریک پاکستان کا ہی فرض ہے یا ان باشندگان پاکستان کا بھی فرض ہے جنہیں اس پاک سرزمین نے ناجائز سرمائے سے ہمکنار کر رکھا ہے، جن کی اولادیں باہر کے ممالک میں ہیں، جن کا سرمایہ باہر کے ممالک میں ہے۔ کرپشنوں کا طوفان بپا ہے، اپنے ان دلدوز حالات و واقعات کی روشنی میں قومیں زیادہ دیر تک آزادی اور خود مختاری سے ہمکنار نہیں رہا کرتیں اور پھر اللہ تعالیٰ کا بھی فیصلہ ہے کہ جو قوم اپنے احوال کی روشنی میں صحیح اقدام نہ کر سکے اس پر کوئی اور قوم مسلط کر دی جاتی ہے اور عالم یہ ہے کہ جیسا کہ حضرت علامہ اقبال نے فرمایا:
بکوچہ کہ دہد خاک را بہاے بلند
بہ نیم غمزہ نیر زیدہ دریغ از تو
”تجھ پر افسوس کہ اس کوچہ (فرنگ) میں جو خاک کو بلند قیمت عطا کرتا ہے“
”تو نے نیم غمزہ قیمت بھی نہیں پائی (تو فرنگیوں کے بازار میں سستا ہی بک گیا)“

ای پیپر دی نیشن