جسٹس جواد ایس خواجہ نے ایک مقدمہ میں ریمارکس دیتے ہوئے پاکستانیوں کی دُکھتی رگ پر بھی انگلی رکھ دی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ اردو زبان میں اگر بات کی جائے تو اس کا اثر زیادہ ہوتا ہے کیونکہ ہم اپنی زبان کی گہرائیوں اور معانی کو اچھی طرح سے جانتے ہیں جبکہ انگریزی زبان میں ہم غیر انگریزی داں اپنا ماضی الضمیر بھرپور انداز میں ادا نہیں کر سکتے۔
اس وقت پاکستان کی پسماندگی کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ ہم نے نہ صرف اپنی اس قومی زبان کو نظر انداز کیا ہوا ہے جس کے بارے میں قائداعظم محمد علی جناح نے اعلان کیا تھا کہ ”اردو پاکستان کی قومی زبان ہو گی“اگر قائداعظم کی بات مان کر اردو کو قومی زبان کا درجہ دیا جاتا تو پھر پاکستان میں کوئی مارشل لا لگنا بھی مشکل تھا کیونکہ اردو زبان نے پوری قوم کو ایک تسبیح میں پرو کر رکھنا تھا لیکن انگریزی دان طبقے نے عوام سے تحقیر کا رویہ اپنا کر اپنی ایک الگ کلاس بنا لی اور اس وقت کی کتنی بڑی ستم ظریفی ہے کہ ایک طرف انگریزی تعلیم معاشرے میں افسر پیدا کر رہی ہے اور دوسری طرف اردو میڈیم کلرکوں کی فوج ظفر موج پیدا کرنے میں مصروف ہے۔ محکمہ تعلیم کی وزارت اور سب لوازمات موجود ہیں لیکن اردو اور انگلش میڈیم کے اس تفاوت کو ختم کرنے کیلئے کسی نے بھی کوئی عملی قدم اٹھانا اس لئے پسند نہیں کیا کہ افسروں کے بچے انگلش میڈیم میں زیر تعلیم ہیں اور اردو میڈیم کو پسماندہ رکھنا اس لئے ضروری ہے کہ انکے بچوں کو کم سے کم مقابلہ کا سامنا کرنا پڑے ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ انگریزی میڈیم کے سکولوں اور کالجوں کا رزلٹ تو سو فیصد آئے اور اردو میڈیم سکولوں اور کالجوں کا رزلٹ پچاس فیصد سے بھی کم آئے بلکہ حیرت انگیز بات ہے کہ لاہور شہر میں ایسے تعلیمی ادارے بھی ہیں جن کا رزلٹ انتہائی نیچے ہوتا ہے۔ افسران ڈنگ ٹپاﺅ پالیسی اپنائے ہوئے ان تعلیمی اداروں کے سربراہوں کو تبدیل کرنے کا اعلان کرتے ہیں لیکن آئندہ سال بھی نتیجہ وہی نکلتا ہے حالانکہ اس کا بہت آ سان حل ہے جن تعلیمی اداروں کا رزلٹ سو فیصد ہے وہاں کے پرنسپل اور چند اساتذہ کو ان تعلیمی اداروں میں ٹرانسفر کر دیا جائے جہاں رزلٹ بہت کمزور ہے اور کمزور تعلیمی اداروں کے اساتذہ اور سربراہ کو اسکے جواب میں ٹرانسفر کر دیا جائے اور باقاعدہ چیک رکھا جائے تو کمزور تعلیمی اداروں کے رزلٹس خود بخود درست ہونے شروع ہو جائینگے۔جسٹس جواد ایس خواجہ شاباش کے مستحق ہیں کہ انہوں نے عوام کو آئینہ تو دکھایا۔ آخر چین و جاپان سمیت دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک نے اپنی زبان کو ترقی دیکر ہی اپنا نام بلند کیا ہے۔ فرانس میں تو جو انگریزی جانتے ہیں وہ بھی جب کسی ایسے ادارے میں داخل ہو جائیں جہاں فرانسیسی پرچم لہرا رہا ہو تو صرف فرانسیسی بولتے ہیں۔ پاکستان کا دورہ کرنے والے غیر ملکی حکمران پاکستان آ کر اپنی قومی زبان میں تقریر کرتے ہیں لیکن ہمارے حکمران اپنی قومی زبان میں جوابی تقریر کرنا باعثِ شرم سمجھتے ہیں۔ ایسا آخر کب تک ہوتا رہے گا؟