”انصاف کی دہلیز“

”انصاف کی دہلیز“

پوری دنےا مےں عدل و انصاف کے تقاضے تقرےباً اےک جےسے ہی ہےں مثلاً منصف با کردار ، معاملہ فہم اور غےر متعصب ہوں ، کسی سےاسی ، مذہبی ےاخاص گروہ سے تعلق نہ رکھتے ہوں، مستغےث ، ملزم اور منصف کے درمےان کو ئی قانون ےا پروسےجر رکاوٹ نہ بن سکےں ، تفتےشی افسران معاملے کی تہہ تک پہنچنے کی صلاحےت رکھتے ہوں، قا نون ِ شہادت واضح ، منطقی اور قابل عمل ہو ، فےصلے تک کم سے کم وقت مےں پہنچنے اور اُن پر عملدر آمد کےلئے انتظامےہ کا سٹرکچر ، طاقت اور نےّت موجود ہو وغےرہ ۔ نظام عدل کی کامےابی کی کسوٹی فرےقےن کا مطمئن ہو نا ےا اےک کا اطمےنان اور دوسرے کی تسلےم ہوتی ہے ۔
وطن عزےز مےں آجکل اطمےنان اور تسلےم دونوں کا معےار ڈھےروں سوالوں کے ساتھ متزلزل نظر آتا ہے جو اس نظام کے بنےادی ڈھانچے کو ہلا دےنے کے مترادف ہے ۔ ہمارے جسٹس سسٹم مےں کچھ غور طلب مسائل مےرے مشاہدے مےں آئے ہےں جنہےں ممکنہ حل کے ساتھ قارئےن کو پےش کر رہا ہوں ۔
۱۔ عدلےہ کا ڈھانچہ : مروجہ نظام کے مطابق ہمارے ہاں عدالتےں دو حصوں مےں منقسم ہےں ےعنی ہائر کورٹس اور لوئر کورٹس ۔ انکا کام انصاف کا وہ مےنار ( Pyramid) بنانا ہو تا ہے جس کا ہر زاوےہ نےچے سے اوپر تک ےکساں انصاف کے عمل کا حصہ ہو ۔ بد قسمتی سے آجکل ےہ دونوں حصے دو مختلف ادارے نظر آتے ہےں ۔ اعلی عدالتوں مےں سےاسی و گروہی طاقتوں کی ےلغار ہے جبکہ لوئر کورٹس مےں تھانہ کلچر کا منظم نمونہ نظر آتا ہے ۔ عوام کو زےادہ تر کےسز کے سلسلے مےں لوئر کورٹس سے ہی واسطہ پڑتا ہے اورےہےںسے ہی انصاف در حقےقت نظر آتا ہے۔ مگر سےاسی آئےنی امور مےں الجھائے جانے کے سبب مضبوط اعلیٰ عدلےہ بھی ان کی بہتری کےلئے کوئی خاص اقدام نہےں کر سکی ۔ نتےجتاً فرسٹرےشن اور جرائم بڑھ رہے ہےں ۔ اس کا قدرتی حل ےہ ہے کہ عدلےہ کو سےاست ، دباﺅ اور نو آبادےاتی کچہری روایتوں سے آزادکرانے کےلئے ٹھوس اقدامات کئے جائےں مثلاً:۔
۱۔ عدلےہ کا اےک ہی کےڈر اور سروس سٹرکچر ہو نا چاہئےے جس مےں منتخب ہوکر آنیوالا ہر افسر مقابلے کے امتحان مےں اچھی کامےابی ، زندگی بھر کی محنت ، مسابقت اور اچھی شہرت کے بعد چےف جسٹس آف پاکستان بننے کا چانس رکھتا ہو جس طرح ہر سےکنڈ لےفٹےنٹ آرمی چےف اور اسسٹنٹ کمشنر وفاقی سےکرٹری بن سکتے ہےں ۔ فی الوقت وہ جوڈےشل افسر جو عوام الناس کے لاکھوں مقدمات نمٹاتے ہےں ان کےلئے Incentive انتہائی محدود ہےں ۔
ب ۔ اعلیٰ عدالتوں کے جج صا حبان کےلئے وکلاءسے ڈائرےکٹ انٹری کو ختم کر کے صرف پروفےشنل افسران کو اوپر لاےا جائے۔ آجکل سےاسی پارٹےاں ”اپنے اپنے ججز“ کے پےنل بنا کر اہم عہدوں کی خاطرپےش کرنے کےلئے تےار ملتی ہےں اور ان پر مخالفےن عوامی کمنٹری کر کے لوگوں کو انصاف سے بد گمان کرتے نظر آتے ہےں ۔ اگر ےہی سلسلہ مزےد چلتا رہا تو ےہ پورے جسٹس سسٹم پر اعتماد کےلئے زہر قاتل ثابت ہو گا ۔ وےسے بھی وکالت اےک معزز پےشہ ہونے کے ساتھ ساتھ ذرےعہ آمدنی بھی ہو تا ہے جس کے اپنے s Market Dynamic ہےںتو جو شخص اعلیٰ عدلےہ مےں آنے سے پہلے 15/20 سال تک مختلف سےاسی پا رٹےوں ، گروہوں ، چےمبرز وغےرہ سے معاملات کرتا رہا ہو اس پر انگلےاں اٹھانا زےادہ آسان ہو جاتا ہے ۔
ج۔ لوئر کورٹس کےلئے احتساب کا عمل کافی پےچےدہ اور غےر واضح ہے‘ خصوصاً کسی جوڈےشل افسر کیخلاف شکائت ہو تو وہ سال دو سال تک Pending رہ سکتی ہے ۔ مےری نظر مےںاسکی مانےٹرنگ سپرےم کورٹ کے پاس ہونی چاہئےے۔ جو آجکل کے کمپےوٹر دور مےں بالکل مشکل نہ ہے۔
2۔ انصاف کا عمل :
۱۔FIR: اےف آئی آر پر تمام مقدمات کا انحصار ہو تا ہے ۔ حالانکہ لکھتے وقت تھانہ محرّراپنی نہ پڑھی جانے والی تحرےر کے ذرےعے پہلے دن ہی فرےادی اور منصف کا رابطہ کاٹ دےتا ہے ۔ پھر80 فےصد کےسز مےں ےہی بنےادی دستاوےز عدالتوں مےں جھٹلا دی جاتی ہے مگر ہم اسی پر بضد قائم ہےں ۔ مےرے خےال مےں FIR کو جامع ۔ غےر مبہم اور سپرےم کورٹ تک فرےاد ی اور منصف کے درمےان رابطے کا ذرےعہ بناےا جانا چاہےے ۔ وہ اس طرح کہ ہر تھانے مےں اےک جوڈےشل مجسٹرےٹ تعےنات کےا جائے ۔ فرےادی اسکے سامنے پےش ہو کر جو کچھ لکھنا ےا لکھانا چاہے اسے حرف بہ حرف ضبط تحرےر مےں لا کر اس پر مہر ثبت کر دی جائے ۔ اسکی اےک مصدقہ کاپی مدعی کے پاس رہے ، اےک عدالت کے رےکارڈ مےں اور اےک تھانے کو دے دی جائے جس پر وہ FIR مرتب کر کے اسے کےس کیساتھ منسلک کر دےں۔ اسی طرح جب پولےس خو د بھی کسی کیخلاف FIR درج کرنا چاہے تو مد عاعلےہ ، مال مقدمہ و دےگر ابتدائی شہادتےں مجسٹرےٹ کے سامنے پےش کر کے وہ بھی اسی سسٹم کو اپنائے۔ اس طرح جھوٹے مقدمات اور غلط بر آمدگی وغےرہ پر بھی کنٹرول حاصل کےا جا سکے گا ۔ مجسٹرےٹ کے تھانے مےں بےٹھنے سے سپر داری ، ضمانت وغےرہ جےسے چھوٹے کےسوں مےں بھی پبلک کی بہت ساری تکالےف ، الزام علےہ کی فوری تذلےل اور وقت کے ضےاع کا ازالہ ہو سکے گا ۔
ب ۔ مقد مات کے فےصلوں مےں تاخےر : عدالتوں مےں ججز ناکافی اور مقدمات سالہا سال تک پڑے رہتے ہےں ۔ ےہ حقےقت عوام کیلئے سوہان روح بننے کے علاوہ مزےد جرائم کو جنم بھی دےتی ہے ۔ مےری نظر مےں اسکی بڑی وجہ جھوٹ کا فےکٹر ہے ۔ پےشی کے وقت جج کے سامنے پڑی فائل مےں مدعی نے جھوٹ بول کر اےک ملزم کی بجائے دس کے نام لکھوائے ہوتے ہےں ۔ پولےس نے کےس مکمل کرنے کےلئے جھوٹ کی پےڈنگ کی ہوتی ہے جبکہ ملزم تو جان بچانے کےلئے جھوٹے گواہ لائے گا ہی ۔اتنے جھوٹوں سے سٹا پٹا کر جج کےلئے اےک اور تارےخ دےنا ہی شائد بہترےن حل ہو تا ہے ۔ مےں سمجھتا ہوں کہ اگر مقدموں کا فےصلہ سناتے وقت جن مدّعےان اور گواہوں کو عدالت جھوٹا قرار دے ، انہےں وہےں پر گرفتار کر لےا جائے اور پھر اس کےس کی پےروی رےاست کرے تو چند ہی مہےنوں مےں کم ا ز کم 30 فےصد مقدمات کم ہو جائےنگے ۔
ج۔صدر پاکستان سے معافی کا اختےار : کو ئی مدعی جب سالہا سال کے اخراجات اور مصےبتےں جھےل کر سپرےم کورٹ سے مجرم کے خلاف سزا سنتا ہے تو اسے انصاف کی راحت کا احساس ہو تا ہے مگر اس کے بعد آئےن کے آرٹےکل 45 کے تحت مجرم کو صدر پاکستان سے معافی اک نئے تلاطم اور فرےقےن مےں لمبی دشمنےوں کا سبب بن سکتی ہے ۔ اسی طرح کسی معروف قومی مجرم کو ذاتی تعلقات کی بناپر بر ملا معاف کر کے قوم پر کسی نئے عہدے کے ساتھ مسلّط کر دےا جاتا ہے تو ےہ اعلیٰ عدالتوں کا کھلا مذاق اور عوام مےں انصاف کے قتل کاتا ثر دےتا ہے ۔ وےسے تو ےہ اختےار غےر اسلامی اور آرٹےکل 227 سے متصادم ہے ۔ پھر بھی اگر کچھ خاص حالات مےںکسی کو معافی دےنی ناگزےر ہو تو ےہ اےک شخص کی صوابدےد پر نہےں ہو نی چاہئےے ۔ ماہرےن قانون و مذہب کی شمولےت سے اےک طاقتور پارلےمانی کمےٹی اےسے کےسز پر آن رےکارڈ بحث کر کے صدر کو اپنی سفارشات پےش کرے جسے تسلےم کرنے کا وہ پابند ہو ۔
”عدالتےں انصاف کی دہلےز ہو تی ہےں جن تک پہنچنے کے بعد فرےادی کو اطمےنان ہو نا چاہےئے کہ اس سے آگے احکام خداوندی اور قوانےن مملکت کے مطابق اسے با ضمےر منصف انصاف دلائےں گے“ مگر آجکل اس دہلےز پر پہنچنے کے بعد ہموطنوں کی بے چےنی کےوںبڑھ جاتی ہے؟ اضطراب مائل بہ فساد کےوں ہو تا جا رہا ہے؟ گواہ مجبور اور گواہےاں کمزور تر کےوں ہوتی جا رہی ہےں ؟ طاقت ور مجرم حلقہ عدالت مےں چمکتے چہروں کے ساتھ Vبناتے اور معصوم فرےادی کےوں سہمے نظر آتے ہےں ؟ کےا اس کےفےت کو کو ئی معاشرہ زےادہ دےر تک برداشت کرسکتا ہے ؟ ان سوالوں کا جواب فقط اےک مضبوط سوسائٹی دے سکتی ہے ۔ جس کے اہل دانش فکر و رہنمائی کرےں اور عوام خود آگہی سے سر شار ہوں ۔ ےہ چنگارےاں بھی ہمارے خاکستر مےں موجود ہےں لہذا تھوڑی کوشش کے ساتھ گم گشتہ انصا ف کی تو قع کی جا سکتی ہے ۔
      

کرنل (ر) زیڈ ۔آئی۔فرخ....نئے راستے

ای پیپر دی نیشن