اسلام آباد (بی بی سی) صدارتی انتخابات کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کروانے میں ایک ہفتے سے بھی کم وقت رہ گیا ہے لیکن حکمران جماعت کی جانب سے ابھی تک متوقع صدارتی امیدوار کے نام کے بارے میں باضابطہ مشاورت شروع نہیں کی گئی ہے۔اکثریتی جماعت ہونے کے ناطے امکان یہی ہے کہ آئندہ صدر پاکستان مسلم لیگ نواز ہی سے ہو گا۔ لیکن وہ خوش قسمت کون ہے؟ اس بارے میں حکمران جماعت کے بیشتر رہنماءابھی تک لا علم ہیں۔مسلم لیگی ذرائع کہتے ہیں کہ تاحال اعلیٰ پارٹی قیادت نے صدارتی امیدوار کے نام پر غور کرنے کے لیے نہ تو کوئی باضابطہ اجلاس طلب کیا ہے اور نہ ہی اس سلسلے میں باضابطہ تجاویز طلب کی ہیں۔مسلم لیگ کی مرکزی شوریٰ کے ایک رکن نے، جو کہ اعلیٰ پارٹی قیادت کے قریب بھی سمجھے جاتے ہیں، بی بی سی کو بتایا کہ وزیراعظم میاں نواز شریف اور ان کے بھائی شہباز شریف کے درمیان صدارتی امیدوار کے بارے میں کچھ ’انڈرسٹینڈنگ‘ موجود ہے لیکن وہ صاحب کون ہیں، اس بارے میں انہوں نے کسی دوسرے پارٹی رہنما کو اعتماد میں نہیں لیا ہے۔ سرتاج عزیز اپنے طور پر صدارت کا امیدوار بننے کے مضبوط امیدوار ہیں۔ ان کے حق میں جو دلائل دیے جا رہے ہیں وہ یہ ہیں کہ وہ چھوٹے صوبے یعنی خیبر پی کے سے تعلق رکھتے ہیں جہاں پر مسلم لیگ کی حکومت نہیں ہے۔ ایسے میں صدر اس صوبے کا ہو تو لوگوں کے لیے پیغام بھی اچھا جائے گا۔ دوسرا اہم مثبت پہلو یہ ہے کہ وہ معیشت، خارجہ اور سلامتی کے امور کو سمجھتے ہیں۔ان کے بعد راجہ ظفر الحق کا نام بھی لیا جا رہا ہے ان کے علاوہ غوث علی شاہ مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والی سندھ سے سب سے بھاری شخصیت ہیں۔ان کے علاوہ ممتاز بھٹو نے جس انداز میں پنجاب کی اکثریتی جماعت پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا ہے اس نے شریف برادران کا دل موہ لیا ہے۔ ذرائع کہتے ہیں کہ ممتاز بھٹو نے کسی وزارت، مشاورت یا عہدے میں اپنے یا اپنے ساتھیوں کے لیے زیادہ دلچسپی نہیں دکھائی۔ ان کے ناقدین کہتے ہیں کہ ممتاز بھٹو شاید سمجھتے ہیں کہ کوئی جانتا نہیں ہے کہ ان کی یہ ساری ’قربانیاں‘ صدر پاکستان کے عہدے کے لیے ہیں۔صدر کے لیے ناموں میں ایک نام ممنون حسین کا ہے۔یہ نام بیشتر پڑھنے والوں کے لیے غیر معروف ہو گا۔ لیکن گزشتہ پندرہ برس سے نواز شریف کے قریب رہنے والے ان صاحب اور ان کی شریف خاندان میں مقبولیت سے خوب واقف ہیں۔یہ وہ نام ہیں جو کسی نہ کسی سطح پر مسلم لیگ ن کے پلیٹ فارم پر صدارتی امیدوار کے طور پر زیر بحث آتے رہے ہیں۔ پارٹی کے بعض اہم رہنما البتہ سمجھتے ہیں کہ رفیق تارڑ کی طرح صدارتی امیدوار کوئی’چھپا رستم‘ بھی ہو سکتا ہے۔