نوائے وقت کی ایک خبر کے مطابق حمزہ شہباز شیخوپورہ اور اس کے آس پاس کئی رمضان بازاروں میں گئے۔ شیخوپورہ لاہور کے پڑوس میں سے ہے وہاں ہیلی کاپٹر پر جانا سمجھ سے باہر ہے۔ سمجھ کے اندر بھی ہوتا تو بھی حیران کن ہے۔ اس کے بعد کاروں کا کارواں چلا۔ پوری 20 کاریں تھیں میر کارواں حمزہ شہباز کی بہت بڑی گاڑی تھی سکیورٹی اور اتفاق سے میر کارواں کی گاڑی درمیان میں تھی۔ دہشت گردی کا خوف خالی دماغوں میں بہت دور تک اپنا گھر بناتا ہے۔ بہرحال سستے رمضان بازاروں کا مہنگا حکمران دورہ بہت دلچسپ ہے۔ حمزہ صاحب باقاعدہ حکمران نہیں ہیں مگر ایسا بے قاعدہ حکمران بھی کم کم کسی نے دیکھا ہو گا۔ یہ سیاسی کارکردگی کی زبردست مثال ہے۔ پنجاب کے باقاعدہ وزیر خوراک برادرم بلال یٰسین ان کے ساتھ ساتھ تھے۔ ان کو مسلسل بریفنگ دے رہے تھے یعنی چیزوں کی قیمت اور کوالٹی سمجھا رہے تھے۔ بلال یٰسین بڑے خوبصورت آدمی ہیں۔ ان کا ایک بیان بہت دلچسپی سے پڑھا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ٹماٹر مہنگے ہیں تو لوگ لیموں استعمال کریں انہیں شاید خبر نہیں ہے کہ لیموں ٹماٹر سے مہنگے ہیں۔ حمزہ شہباز وزیر نہیں ہیں مگر وزیر ان کے سامنے حاضر جناب رہتے ہیں۔ مزا تو یہ ہے کہ اب شیخوپورہ کے سستے رمضان بازار میں کسی کو مہنگی چیزیں بیچنے کی جرات نہ ہو۔ مگر حمزہ صاحب کے جاتے ہی پھر وہی حال ہو گا جو خریداری کرنے والوں اور والیوں کو بے حال کر دے گا۔ اتنے مہنگے دورے کا کیا فائدہ؟ برادرم بلال یٰسین کی خدمت میں عرض ہے کہ وہ حمزہ شہباز کے بغیر بھی کوئی مہنگائی دورہ کر لیا کریں اس تکلیف کے بعد لوگوں کو کچھ ریلیف تو ملے۔
مریم نواز کی بھی سیاسی سرگرمیاں جاری و ساری ہیں۔ انہوں نے سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کو ن لیگ کے لئے دعوت دی ہے اور آنے والے انتخابات میں ٹکٹ بھی آفر کر دی ہے۔ ایک بار مولانا اجمل قادری نے مریم نواز کو حنا ربانی کھر کی طرح وزیر خارجہ بنانے کی تجویز دی تھی۔ میں نے اس کی مخالفت میں کالم لکھا تھا جو مریم نواز کو پسند نہ آیا ہو گا۔ حنا ربانی کھر نے کمال سمجھداری اور جرات سے صاف انکار کر دیا۔ مجھے حنا کی بہت سی باتیں پسند نہیں ہیں لیکن یہ بات بہت اچھی لگی۔ انہوں نے لوٹا بننے سے انکار کیا۔ میں مریم نواز کو اپنی بیٹیوں کی طرح سمجھتا ہوں اور اسے ایک قابل عورت جانتا ہوں۔ وہ حمزہ اور کیپٹن صفدر سے بہتر ہیں مگر ان کی بات توہین ہے اور اگر حنا یہ درخواست مان بھی لیتی تو پھر بھی میں اسے توہین ہی سمجھتا۔ تب مریم نواز کے لئے مشکلات بھی پیدا ہوتیں۔
مجھے ایک اور ”انکار“ بھی اچھا لگا ہے۔ ڈاکٹر امجد کے مطابق جنرل مشرف نے خورشید قصوری، چودھری برادران، محمد علی درانی، حامد ناصر چٹھہ کے ساتھ ملنے سے انکار کر دیا ہے۔ مجھے جنرل مشرف کا کوئی کام پسند نہیں ہے مگر یہ بات پسند آئی ہے۔ لوٹوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک کرنا چاہئے۔ نواز شریف نے طارق عظیم کو عظیم بنایا۔ امیر مقام کو مقام دیا ہے تو اچھا نہیں کیا۔ نواز شریف نے سلمان شہباز کو لندن سے بلوا کے چین کے دورے میں شامل کیا۔ اس میں اچھائی یہ ہے کہ سلمان شہباز توانائی بحران پر بہت کام کر چکا ہے۔ بین الاقوامی کمپنیوں کے نمائندوں کے ساتھ اپنی ریسرچ رپورٹیں بھی ڈسکس کر چکا ہے مگر اس ملک میں اور بھی محنتی اور مخلص ماہرین موجود ہیں۔
میں کالم میں ایسے سیاسی لیڈر کا ذکر بھی کرنا چاہتا ہوں جو میرا ہم عمر ہو کر بھی شہزادہ ہی ہے۔ جہانگیر بدر وزیر بھی رہا ہے مگر وہ سرتاپا اندر باہر سے پکا لہوری ہے۔ وہ ذرا بھی نہیں بدلا۔ مکمل اور مستقل جیالا ہے۔ جہانگیر بدر نے بینظیر بھٹو کی 77ءسے 88ءتک سیاسی جدوجہد پر سیاسی پی ایچ ڈی کی ہے۔ یہ بہت بڑا کام ہے۔ پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران نے ان کے اعزاز میں استقبالیہ دیا۔ جہاں گپ شپ ہوئی جہانگیر بدر کے لئے تقریریں نہ ہوئیں مگر عظیم لوگوں کے حوالے سے ریسرچ کے بارے میں باتیں ہوئیں ان سب کا کریڈٹ جہانگیر بدر کو جاتا ہے۔
ایک بہت شاندار بے داغ اور ایماندار صحافی شبیر حسین شاہ کے لئے ایک تقریب پنجاب یونیورسٹی میں ہوئی۔ آبروئے صحافت ڈاکٹر مجید نظامی نے ٹیلی فونک خطاب میں انہیں خراج تحسین پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ مجھ میں اور شبیر شاہ میں قدر مشترک تھی کہ وہ بھی چاہتے تھے کہ مسلمانوں کو ایک جنگ کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ مرحوم نے افغان جہاد اور مسئلہ کشمیر کے لئے بہترین صحافتی کردار ادا کیا۔ ان کا تعلق حمید نظامی مرحوم کے ساتھ بھی بہت تھا۔ اس شاندار تقریب کے لئے سارا اہتمام ایثار رانا نے کیا۔ وہ خود بھی ایک بہترین کالم نگار ہیں بہت خوبصورت کمپیئرنگ سے ایثار رانا نے محفل کو زندہ و بیدار رکھا۔ مجیب الرحمن شامی ڈاکٹر مجاہد منصوری، سرور حسین شاہ، عطاءالرحمن، بشریٰ رحمان، چودھری غلام حسین، صوفیہ بیدار، ڈاکٹر سعید الٰہی، ڈاکٹر اسلم مسعود، ریاض نسیم بٹ نے شاہ صاحب کے بارے میں خطاب کیا۔ عبدالقادر حسن کے شاندار کالم سے اقتباسات پڑھ کے سنائے گئے۔ ڈاکٹر مجاہد کامران بشیر شاہ مرحوم کا بیٹاہونے پر فخر کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ انہوں نے بہت اچھی بات کی کہ وہ اسلام کے درست تصور سے آگاہ تھے۔ مسلمانان برصغیر کو مضبوط دیکھنا چاہتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ مسلمان دنیا میں طاقتور اور حکمران ہوں۔ ڈاکٹر مجاہد کامران کی شخصیت میں دانشورانہ اور دلیرانہ شہزادگی موجود ہے مرحوم شبیر شاہ بھی صحافت کے قلندر اور شہزادے تھے قلندری شہزادگی سے بڑھ کر ہے۔